Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصنف کو صرف گلاب کی خوبصورتی ہی نہیں کانٹوں کے بارے میں بھی لکھنا ہوگا: بکر پرائز ونر بانو مشتاق

بانو مشتاق کہتی ہیں کہ انعام ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لایا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حال ہی میں انٹرنیشنل بکر پرائز جیتنے والی انڈین مصنفہ بانو مشتاق کہتی ہیں کہ تمام مصنفین شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے تجربات کی بنیاد پر لکھتے ہیں۔
بانو مشتاق، کہ کنڑ زبان (انڈیا کی ایک علاقائی زبان) میں لکھنے والی پہلی مصنفہ ہیں، جنہیں یہ عالمی ادبی اعزاز حاصل ہوا، کہتی ہیں کہ مصنف کا فرض ہے کہ وہ سچ کو بیان کرے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ ’آپ صرف گلاب کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتے۔ آپ صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی خوشبو کیسی ہے، پتیاں کیسی ہیں، رنگ کیسا ہے، آپ کو اس کے کانٹوں کے بارے میں بھی لکھنا ہوگا۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔‘
’ہارٹ لیمپ‘ بانو مشتاق کی پہلی کتاب ہے جس کا انگریزی ترجمہ ہوا۔
یہ بارہ طاقتور مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہے اور بکر پرائز کتاب کی مترجم دیپا بھاستی اور مصنف بانو مشتاق دونوں کو دیا گیا ہے۔
ناقدین نے ان کہانیوں کو ان کے خشک اور نرمی سے بھرپور طنز و مزاح، اور پدرشاہی، ذات پات اور مذہب پر گہری تنقید کے لیے سراہا ہے۔

پابندیوں سے بغاوت

بانو مشتاق نے زندگی میں ایک متبادل راستہ اختیار کیا، اور سماجی پابندیوں اور سوچ سے بغاوت کی۔
ایک نوجوان لڑکی کی حیثیت سے وہ شادی کے امکانات بہتر بنانے کے لیے لکھنے لگیں۔
1948  میں ایک مسلم خاندان میں پیدا ہونے والی بانو نے اردو کے بجائے کنڑ زبان میں تعلیم حاصل کی، جبکہ زیادہ تر مسلمان لڑکیاں اردو سیکھتی تھیں۔
انہوں نے کالج میں تعلیم حاصل کی، صحافت کی اور ہائی سکول میں تدریس بھی کی۔

گھریلو زندگی میں جمود

محبت کی شادی کے بعد بانو کی زندگی محدود ہو گئی۔ ’مجھے علمی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے لکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں ایک خلا میں تھی۔ اور اس نے مجھے نقصان پہنچایا۔‘
انہوں نے ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 27 سال کی عمر میں، ایک نو عمر ماں کی حیثیت سے انہوں نے خود پر پٹرول چھڑک کر خودسوزی کی کوشش کی۔
ان کے شوہر نے تین ماہ کی بیٹی کو ان کے قدموں پر رکھا اور گلے لگا کر انہیں اس اقدام سے باز رکھا۔

’ہارٹ لیمپ‘ بانو مشتاق کی پہلی کتاب ہے جس کا انگریزی ترجمہ ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ واقعہ ان کی کتاب میں ایک کہانی کی صورت میں موجود ، جہاں بیٹی اپنی ماں کو خودکشی سے روکتی ہے۔
بانو کہتی ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ میری ذاتی کہانی ہے۔ ’اگرچہ یہ عین میری کہانی نہیں ہے، لیکن شعوری یا لاشعوری طور پر، کچھ نہ کچھ مصنف کی زندگی اس کی تحریر میں جھلکتی ہے۔‘

ادبی شناخت اور شہرت

بانو مشتاق کا گھر، جو جنوبی انڈیا کے چھوٹے سے شہر حسن میں واقع ہے، کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔
دیواروں پر انعامات، اسناد اور بکر پرائز کی نقل سجی ہوئی ہے۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں: ’میرا لکھنے کے لیے پیدا ہونا میرے جنم کنڈلی میں بھی لکھا تھا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ انعام ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لایا ہے، اگرچہ شہرت کبھی کبھار بوجھ محسوس ہوتی ہے۔
’لوگوں سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں، میں ان سے محبت کرتی ہوں۔ لیکن اس توجہ کی وجہ سے میرے پاس اب لکھنے کا وقت نہیں بچا۔ مجھے عجیب سا لگتا ہے... لکھنا میرے لیے راحت اور خوشی کا ذریعہ ہے۔‘ ان کے مطابق لکھنے والا ہمیشہ عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔
بانو مشتاق کی تصانیف میں چھ مختصر کہانیوں کے مجموعے، ایک مضمون اور ایک نظموں کا مجموعہ شامل ہے۔
’ہارٹ لیمپ‘ کی کہانیاں ان کے 1990 سے لے کر اب تک کے مجموعوں میں سے منتخب کی گئی ہیں۔
بکر جیوری نے ان کی کردار نگاری کی تعریف کی، چاہے وہ پرجوش دادیاں ہوں یا بے وقوف مذہبی رہنما، اور انہیں ’بقاء اور حوصلے کی حیران کن تصاویر‘ قرار دیا۔
ان کی کہانیاں مسلم خواتین کے تجربات کو بیان کرتی ہیں، جن میں گھریلو تشدد، بچوں کی موت، اور ناجائز تعلقات جیسے موضوعات شامل ہیں۔
بانو کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کی مرکزی کردار مسلم خواتین ہیں، لیکن ان کے مسائل عالمی نوعیت کے ہیں۔
’یہ (خواتین) ہر جگہ اسی قسم کی دباؤ، استحصال اور پدرشاہی کا شکار ہوتی ہیں۔ عورت، عورت ہی ہوتی ہے، چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔‘
اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگ بھی ان کی تحریر کو پسند نہیں کرتے جن کے لیے وہ لکھتی ہیں، لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ سماج کی سچائیوں کو بیان کرنے میں مخلص ہیں۔
ان کے مطابق ’مجھے وہ کہنا ہے جو معاشرے کے لیے ضروری ہے۔‘
’مصنف ہمیشہ عوام کے ساتھ ہوتا ہے، عوام کے لیے، اور عوام کی خاطر۔‘
 

شیئر: