Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اٹلی سے پاکستان آ کر کروڑوں کی ڈکیتی کرنے والا ملزم پولیس نے کیسے پکڑا؟

ملزمان کی اپنی ہی غلطی نے انہیں بے نقاب کر دیا۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے بارے میں آپ نے یہ خبریں تو بہت سنی ہوں گی کہ لوگ یہاں سے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جا کر کمائی کرتے ہیں، لیکن گجرات کے گاؤں چھنی کے رہائشی وسیم اختر نے اٹلی سے وطن واپس آ کر چار کروڑ 70 لاکھ روپے کی ڈکیتی کی اور کچھ ہی دنوں میں گرفتار ہو کر جیل پہنچ گیا۔
وہ کافی عرصے سے اٹلی میں مقیم تھا اور اچھے خاصے پیسے بھی کما رہا تھا۔ کچھ عرصہ قبل اچانک اس نے ٹکٹ کٹوائی اور پاکستان پہنچ گیا۔ خلافِ معمول پاکستان پہنچنے پر وہ گھر جانے کے بجائے گجرات کے ایک ہوٹل میں پہنچا اور کمرہ بُک کرا کے وہاں رہنا شروع کر دیا۔ جب قیام طویل ہوا تو ہوٹل والوں نے بھی مشکوک سمجھا اور جان چھڑا لی۔ جس کے کچھ ہی دنوں بعد پولیس نے ان کے گاؤں میں چھاپہ مارا تو گھر والوں کو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا اٹلی سے پاکستان آیا ہوا ہے۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پولیس نے گاؤں چھنی میں وسیم اختر کے آبائی گھر پر چھاپہ مارا۔ گھر والوں پر جیسے بجلی گری۔ انہیں تو علم ہی نہ تھا کہ وسیم واپس آ چکا ہے۔ اصل راز تو تب کھلا جب گجرات کے نواحی گاؤں سوک کلاں میں ایک مشہور کاروباری شخصیت کے منیجر کے گھر چار کروڑ 70 لاکھ روپے کی ڈکیتی ہوئی۔ واردات کی تفتیش کے دوران کڑیاں جُڑتی چلی گئیں اور یورپ پلٹ وسیم اختر اس جرم کی گتھی کا مرکزی کردار بن کر سامنے آیا۔
کہانی یہ تھی کہ خالد ضیاء متہ نامی کاروباری شخصیت اپنی رقم کو محفوظ رکھنے کے لیے منیجر کے گھر رکھوا دیا کرتے تھے۔ ایک چھوٹا سا گھر، جہاں کسی کو شک ہونے کا سوال ہی نہ تھا۔ لیکن خطرہ تو اکثر اندر سے آتا ہے۔ منیجر کے قریبی رشتہ دار افتخار احمد نے اس راز کو بھانپ لیا۔ سازش کی بنیاد رکھی گئی، منصوبہ بنایا گیا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وسیم اختر کو اٹلی سے بلایا گیا۔ وہ چپکے سے پاکستان آیا، گجرات کے ہوٹل میں قیام پذیر ہوا، اور پھر خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
پولیس کے مطابق واقعے کے بعد ہوٹل اور دیگر مقامات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ملزم وسیم اختر، افتخار احمد اور ان کے دیگر ساتھی ملاقاتیں کرتے اور منصوبہ بندی کرتے دیکھے گئے ہیں۔

گجرات میں وسیم اختر کے خاندان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ واپس آیا ہوا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدا میں جب وسیم اختر کا نام آیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اٹلی میں مقیم ہے، لیکن جب پتہ چلا کہ وہ 25 دن سے گجرات ہی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہے تو شک یقین میں بدل گیا۔ ہوٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہاں بیٹھ کر منصوبہ بندیاں ہوتی رہی ہیں۔ ملزمان وہاں معمول کے مطابق ملتے، بیٹھتے، سوچتے اور منصوبہ بندی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تھانہ صدر گجرات میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق وقوعہ کے روز منیجر ملک علی اپنے مالکان کی اسلام آباد میں ایک کوٹھی فروخت کرنے کے بعد ایک بیگ میں چار کروڑ 70 لاکھ روپے ڈال کر اپنے گھر لے گئے۔ رات کو دو موٹرسائیکلوں پر سوار پانچ افراد دروازے پر آئے اور دستک دی۔ ان میں سے دو نے پولیس یونیفارم پہن رکھی تھی جبکہ تین سفید کپڑوں میں ملبوس تھے۔ دو کے پاس رائفلز جبکہ ایک کے پاس پسٹل تھا۔ ان سب نے ماسک لگا رکھے تھے۔
دروازے پر دستک ہوئی اور گھر والے باہر آئے تو یہ پانچوں ملزمان زبردستی گھر میں گھس گئے اور انہیں یرغمال بنا لیا۔ بغیر کسی توقف کے انہوں نے پیسوں والا بیگ مانگا اور یرغمال اہل خانہ نے بیڈ کے نیچے سے وہ بیگ نکال کر دے دیا جسے لے کر ملزمان فرار ہو گئے۔
پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کیں، ابتدا میں کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی البتہ جوں ہی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنا شروع کی تو ملزمان کی اپنی ہی غلطی نے انہیں بے نقاب کر دیا۔
پولیس نے اس واقعے کی تفتیش میں اس لیے بھی پھرتی دکھائی کہ واقعے کے مدعی سیاسی شخصیت اور گجرات کے چوہدریوں کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے پولیس نے ہر زاویے سے تفتیش کو آگے بڑھایا اور کئی ایک ٹیمیں تشکیل دیں۔

پولیس نے گاؤں چھنی میں وسیم اختر کے آبائی گھر پر چھاپہ مارا۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)

جب روایتی تفتیش سے بات نہ بنی تو پولیس نے علاقے کے سی سی ٹی وی کیمرے دیکھنے شروع کیے۔ جب وقوعہ کو بیک ٹریک کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ملزمان دو دفعہ علاقے کی ریکی اور چوری کرنے کے بعد نکلنے کی ریہرسل کر چکے تھے۔ دونوں دفعہ ملزمان نے مختلف راستے اختیار کیے اور گاؤں سے باہر نکل گئے۔ اس دوران ملزمان یہ چیک کر رہے تھے کہ راستے میں کیمرے کہاں کہاں پر لگے ہوئے ہیں، اس لیے وہ جس بھی کیمرے سے گزرتے وہ اس کیمرے کی طرف دیکھتے، جس سے پولیس کا شک یقین میں بدل گیا۔
وقوعہ کے روز بھی ملزمان چہروں کو ڈھانپے ہوئے انہی کیمروں کے سامنے سے گزرے تو ایک مقام پر وہ گجرات شہر کے سیف سٹی کیمروں کی نظر میں بھی آ گئے۔ جہاں ان کے پیچھے ایک کار بھی دکھائی دی۔ پولیس نے کار اور موٹرسائیکلوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھی تو سب سے پہلے کار کو ٹریس کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پولیس کے مطابق جب کار ٹریس کی گئی تو وہ کرائے پر حاصل کی گئی کار تھی جو ایک دوست نے لے کر اپنے کسی دوسرے دوست کو دی ہوئی تھی اور اسی دوست نے آگے تیسری جگہ پر اپنے ان دوستوں کو یہ کار فراہم کی تھی۔ جن کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ کار وسیم اختر اور افتخار احمد کے زیرِ استعمال رہی۔

پولیس کے مطابق ملزمان نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)

سی سی ٹی وی فوٹیجز دیکھنے کے دوران پولیس نے پولیس کی وردی میں ملبوس ایک ملزم کی شناخت کی جو وسیم اختر کے گاؤں کا ہی رہائشی تھا اور حافظ کے نام سے مشہور تھا۔ جب اسے گرفتار کیا تو اس نے اس سارے وقوعہ کی منصوبہ بندی پولیس کے سامنے کھول کر رکھ دی۔ جس کے نتیجے میں پولیس نے پہلے افتخار اور بعد ازاں وسیم کو گرفتار کیا۔
پولیس کے مطابق اب بھی دو ملزمان مفرور ہیں جنہیں اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی شروع کر دی گئی ہے جبکہ دیگر تین ملزمان کو ڈکیتی اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں جوڈیشل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے اعترافِ جرم بھی کر لیا ہے اور ان سے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے کی ریکوری بھی کر لی گئی ہے، جبکہ ملزمان مدعی کے ساتھ دیگر رقم زمین اور دیگر ذرائع سے ایڈجسٹ کرانے پر بھی تیار ہو چکے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک ریکور ہونے والے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے میں سے 80 لاکھ روپے وسیم اختر جبکہ دیگر رقم افتخار احمد سے برآمد ہوئی ہے، جو اس نے اپنے سسرال میں چھپا رکھی تھی۔

شیئر: