Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کا اوشن کویسٹ جو عالمی سمندری تحفظ میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے

سعودی ادارہ ماحولیاتی توازن کو قائم رکھنے والے اداروں میں شامل ہے (فوٹو: عرب نیوز)
فرانس کے شہر نِیس میں اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام اس برس کی ’اوشن کانفرنس‘ سعودی عرب کے لیے اس لحاظ سے اہم ثابت ہوئی کہ اس میں مملکت کی زیرِ قیادت قائم ادارے ’اوشن کویسٹ‘ کو ایک منفرد اعزاز ملا ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر’اوشن کویسٹ‘ ایسے ادارے کے طور پر سامنے آیا جو نہ صرف پالیسی بلکہ حقیقی طور پر بھی سمندر میں قدرتی وسائل کا خیال رکھتے ہوئے ماحولیاتی توازن کو قائم رکھنے والے اداروں میں شامل ہے۔
حال ہی میں ’اوشن کویسٹ‘ نے ’اوشن ایکس‘ کے ساتھ شراکت میں ’اراؤنڈ افریقہ ایکسپیڈیشن‘ کے پیشرو کے طور پر کام کیا ہے جس میں قابلِ ذکر سائنسی دریافتیں ہوئی ہیں۔
اس کے ذریعے اقوامِ متحدہ کی اوشن کانفرنس کو مضبوط پیغام گیا ہے کہ حقیقی سمندری تحفظ کے لیے تحقیق، تعاون اور تعلیم جیسی مشترکہ کوششیں لازمی ہیں۔
اوشن کویسٹ کے سی ای او ہیں، عرب نیوز کو بتایا کہ ’سائنسی تحقیق کی اس مہم کی ٹیم افریقہ گئی جہاں ہم نے 16افریقی سائنسدان کو اپنے جہاز پر بلایا جبکہ ہم نے 200 بندرگاہوں پر قیام کیا۔
ہیلی کاپٹر سے بڑے جانوروں کے سروے سے لے کر اوشن ایکسپلورر کی سطح سے ایک ہزار میٹر سے بھی نیچے پہاڑوں کا جائزہ لینے تک، تحقیقی ٹیم نے جدید ترین ٹیکنالوجی اور انسانی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اُن ماحولی نظاموں سے پردہ اٹھایا جو اب تک نگاہوں سے اوجھل تھے۔

 تحقیقی ٹیم نے اُن ماحولی نظاموں سے پردہ اٹھایا جو اب تک نگاہوں سے اوجھل تھے۔ (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

اوشن کویسٹ‘ سعودی عرب کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر سمندری میدان میں کام کی وجہ سے، تیزی سے کلیدی کردار کی  حامل ہوتی جا رہی ہے۔ گہرے سمندروں کی کھوج اور اس حوالے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کے لیے اس تنظیم نے خود کو وقف کر رکھا ہے۔
 اس تنظیم کا ایک اہم مشن افریقہ کے گرد تحقیقی مہم تھی جس نے نہ صرف نیا ڈیٹا بلکہ سمندری سائنس کا ایسا مساویانہ ماڈل بھی دیا جسے سب استعمال کر سکتے ہیں۔
روبوٹک گاڑیوں، مختصر طور پر زیرِ آب رہنے والی آْبدوزوں اور معلومات کا احساس کرلینے والے آلات  کے ذریعے ٹیم نے اِس مشن کے دوران کئی مرتبہ سمندر کے اندر اتر کر سائنسی تحقیق کا کام کیا۔

مملکت کی زیرِ قیادت قائم ادارے ’اوشن کویسٹ‘ کو ایک منفرد اعزاز ملا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

ٹیم نے پانی کے اندر 53 گھنٹے گزارے تقریباً 90 نمونے حاصل کیے اور زیرِ زمین ہزاروں کلو میٹر علاقے کی پیمائش کی۔ اس کے علاوہ پروازوں کے ذریعے 922 ناٹیکل میل کے علاقے میں بڑے سمندری جانوروں کے بارے میں اضافی ڈیٹا بھی فراہم کیا۔
ٹیم کو زیرِ آب نئے پہاڑوں کا بھی پتہ چلا جو ماہی پروری اور سمندر میں انسانوں اور پودوں کی وسیع تعداد سے پیدا ہونے والے متوازن ماحول کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
وِسبیک کا کہنا تھا کہ ’ہم زیرِ آب پہاڑوں کے نظام تک جائیں گے اور کھوج لگائیں گے کہ وہاں کیا ہے۔ ہم وہاں مختلف زمروں کو دیکھیں گے، ان کی کارگزاری کی حالت کے پتہ چلائیں گے اور اسے سمجھیں گے۔ پھر ہم یہ معلومات کمیونٹی کے ساتھ شیئر کریں گے تاکہ سب کو وجوہات کا علم ہوجائے کہ زیرِ آب پہاڑوں میں سے کچھ کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔

سمندری تحفظ کے لیے تحقیق، تعاون اور تعلیم جیسی مشترکہ کوششیں لازمی ہیں۔(فوٹو: عرب نیوز)

یہ اہم معلومات اس لیے ضروری ہیں کیونکہ کئی ممالک ’ہائی سیز ٹریٹی‘ کی توثیق کے معاہدے اور اس پر عمل درآمد کو اقوامِ متحدہ کی اوشن کانفرس کی توجہ کا محور سمجھتے ہیں۔
وِسبیک کا کہنا تھا ’جانوروں اور پودوں سے پیدا ہونے والے متوازن ماحول کے تحفظ کا، کسی ملک کے دائرۂ اختیار سے آگے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ کسی بھی ملک کے دائرۂ اختیار سے باہر کے سمندر میں واقع ہے۔
افریقی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے جن میں ’نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن‘، ’دا یونیورسٹی آف کیپ ٹاؤن‘ اور ’دا ساؤتھ افریقن نیشنل بائیوڈائیورسٹی انسٹیٹیوٹ‘، شامل تھے، ’اوشن کویسٹ‘ کی ٹیم نے افریقی سائنس کی قابلیت اور صلاحیت کی تعمیر میں بھی مدد فراہم کی۔ پورے برِ اعظم سے چوبیس پیشہ ور نوجوان جو ابتدائی کام کر رہے ہیں، انھیں زیرِ آب سمندر کی پیمائش کرنے اور ماحولیاتی ڈیٹا کے تجزیہ کرنے کی تربیت دی گئی۔

وِسبیک کا کہنا تھا ’ہم زیرِ آب پہاڑوں کے نظام تک جائیں گے اور کھوج لگائیں گے کہ وہاں کیا ہے۔ (فوٹو: ایکس اکاونٹ کاوسٹ)

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کا تعاون مستقبل میں افریقہ میں سمندری سائنس کے لیے از حد ضروری ہے۔ ’ہم نے دیکھا ہے کہ جب حکومتیں، سائنسدان اور علاقائی ادارے ایک مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہو جائیں تو علم آگے بڑھتا ہے اور اس تک رسائی اور مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
اس بار اقوامِ متحدہ کی اوشن کا نفرنس نے ایک مکمل پلیٹ فارم دیا جہاں ایسے کارنامے اور ان کےنتیجے میں پیدا ہونے والے منصوبے سامنے آئے۔
وِسبیک کا کہنا تھا ’میں نے فیصلہ کیا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی کہ ہم خوشی منائیں،’اوشن کویسٹ‘ کا آغاز کر دیں اور اقوامِ متحدہ کی اوشن کانفرنس میں اپنی آمد کا اعلان کر دیں۔
وہ کہتے ہیں ’اس زمانے میں جبکہ سمندری بحران بڑھ رہے ہیں۔۔۔چاہے آپ پلاسٹک کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی، زیادہ مچھلیاں پکڑنے یا پھر آب و ہوا کی تبدیلی کا ذکر کریں۔۔۔آگاہی ایک مضبوط حل فراہم کرتی ہے۔
وِسبیک کے بقول ’ہم ڈیٹا اور معلومات سامنے لا کر جہالت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک مرتبہ معلومات واضح ہوجائیں تو اس کی بنیاد پر ضابطوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایجنسیاں بھی بن سکتی ہیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا ’بحیرۂ روم ہو یا وہ سمندر جہاں پر کسی کا اختیار نہیں، ’اوشن کویسٹ‘ کا ادارہ سمندری تحفظ کے حدودِ اربعہ کو نئے طریقے سے لکھنے میں مدد دے رہا ہے۔ اور اس کام میں ہم محض زیرِ سمندر زمین کی پیمائش نہیں کر رہے بلکہ بین الاقوامی تعاون کے لیے ایک نیا نقشہ بنا رہے ہیں۔‘

 

شیئر: