اسرائیل آج تک اپنی جوہری صلاحیت کے حوالے سے ابہام کو برقرار رکھے ہوئے ہے تاہم دنیا بھر میں ماہرین اس امر کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے پاس 1967 میں ہونے والی سات روزہ جنگ سے قبل بھی ایٹم بم موجود تھے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ 1966 سے دنیا کے جوہری ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق اسرائیل کے پاس کم سے کم 90 جوہری وار ہیڈز موجود ہیں، اور ادارے کو یقین ہے کہ ان کو 4500 کلومیٹر کے دائرے میں جنگی طیاروں کی مدد سے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے جبکہ ان کو زمین سے فائر کیے جانے والے میزائلز اور آبدوزوں کے ذریعے بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
دوسری طرف ایران نے جوہری مواد کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں جبکہ اسرائیل اس کا حصہ نہیں ہے۔
ان حالات میں یہ سوال اہم ہے کہ دنیا اسرائیل سے جواب طلب کیوں نہیں جو اس مقصد کے تحت ایران میں تباہی پھیلا رہا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کو ختم کیا جائے، جس کے بارے میں بین الاقوامی جوہری ادارے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ پلانٹ توانائی کے ذرائع سے متعلق ہیں اور ان کا ہتھیاروں سے تعلق نہیں ہے۔
مارچ میں ویانا میں بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں آسٹریا کے لیے قطر کے سفیر جاسم یعقوب الحمادی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’قطر ان کوششوں کو تیز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ اسرائیل کے تمام جوہری ذرائع اٹامک انرجی ایجنسی کے تحت لائے جائیں اور اسرائیل کو جوہری مواد کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا حصہ بنایا جائے۔‘

تاہم دوسری جانب اسرائیل جوہری مواد کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط اور اٹامک ایجنسی کے ساتھ تعاون سے انکاری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے وہ اقوام متحدہ کی قرارداد 487 کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اسرائیل نے سات جون 1981 میں عراق کے جوہری تحقیقی مرکز پر حملہ کیا تھا، جس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یو این کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی۔
سکیورٹی کونسل کا کہنا تھا کہ عراق 1970 میں نافذ ہونے والے جوہری مواد کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا حصہ تھا۔
دوسرے خصوصاً ترقی پذیر ممالک کی طرح عراق کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی معاشی ترقی کے لیے پرامن مقاصد کے تحت اور جوہری مواد کے عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق توانائی کے ذرائع کو آگے بڑھائے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 487 جو ابھی تک موجود ہے، میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ ’وہ فوری طور پر اپنی جوہری تنصیبات کو اٹامک انرجی ایجنسی کے تحت لائے۔‘
تاہم اسرائیل نے کبھی اس کی تعمیل نہیں کی۔
جوہری مواد کے حوالے سے ابہام کا دائرہ اسرائیل کے سرکاری موقف تک بھی پھیلا ہوا ہے جس میں وہ 1960 سے کہہ رہا ہے کہ ’وہ مشرق وسطیٰ کا پہلا ملک نہیں ہو گا جو جوہری ہتھیار متعارف کرائے گا۔‘
نومبر 2023 میں جب غزہ جنگ کو تقریباً ایک مہینے کا عرصہ گزرا تھا، اس وقت اسرائیل کے ثقافت کے وزیر امیچائے ایلیاہو نے کہا تھا کہ ’اسرائیل کو غزہ پر ایٹم بم کی طرح کی کوئی شے پھینک دینی چاہیے، جس سے وہ سب ہلاک ہو جائیں۔‘
اس کے فوراً بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ان کو کابینہ سے نکال دیا تھا اور کہا تھا کہ ’ان کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔‘
تاہم ایمچائے نے ایکس پر لکھا کہ ’یہ سمجھنے والوں کے لیے واضح تھا اور وہ استعارے پر مشتمل بیان تھا۔‘
اس کے جواب میں انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ارسن اوسٹروسکی جنہوں نے اپنے ایکس پر تعارف میں خود ’پراؤڈ زویونسٹ‘ لکھ رکھا ہے، نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ بات سب پر ظاہر ہو گئی کہ آپ ایک بے وقوف انسان ہیں، اگر یہ بات محض استعارے کے طور پر بھی تھی تو پھر بھی ناقابل معافی تھی۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کب اپنا منہ بند رکھنا ہے۔‘
اسرائیل میں جوہری بجلی کی پیداوار کے پلانٹس نہیں ہیں تاہم ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر جوہری تنصیبات موجود ہیں۔
1950 کی دہائی کے اواخر میں شمعون نیوکلیئر ریسرچ سینٹر مبینہ طور پر فرانس کی مدد سے بنایا گیا اور 2016 میں ان کی موت کے بعد اسے ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ صحرائے نیگیو میں مصر کی سرحد سے بمشکل 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک بہت بڑا حفاظتی کمپلیکس ہے۔

ایران ایسے بیلسٹک میزائل رکھتا ہے جو اس ریسرچ سینٹر تک رسائی کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کہ تہران سے تقریباً 1500 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسرائیل کی جانب سے حملوں کے بعد ایران اس کو تباہ کرنے کے بجائے اسرائیلی شہروں پر کیوں حملے کر رہا ہے؟
تو اس کا جواب کسی حد تک ’سیمسن آپشن‘ میں ملتا ہے۔
سیمسن آپیشن تباہی کا ایک ایسا پروٹوکول ہے جس کے وجود کا کبھی اسرائیل نے اعتراف نہیں کیا اور کبھی انکار بھی نہیں کیا۔
عرب نیوز نے مارچ میں رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دو بار جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے قریب پہنچ گیا تھا۔
2017 میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر وہ اپنے دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کی نیت سے جوہری دھماکے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
یہ منصوبہ ریٹائرڈ جنرل ایٹزاک یاکوف کے انٹرویوز کی وجہ سے منظرعام پر آیا، جو کہ اسرائیلی نژاد امریکی تاریخ دان اینور کوہن نے کیے تھے اور ایٹزاک یاکوف کی موت کے بعد شائع کیے گئے تھے۔
انہوں نے 2023 میں انکشاف کیا تھا کہ 1973 میں یوم کیپور کی جنگ کے دوران جب اسرائیلی فوجی کی پوزیشن کمزور دکھائی دے رہی تھی اس وقت کے وزیراعظم گولڈا میئر کو آخری دفاعی حربے کے طور پر جوہری بموں اور میزائلوں کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔

اس قیامت خیز منصوبے کا کوڈ نام سیمسن تھا جو کہ اس اسرائیلی شخص کے نام پر رکھا گیا جس کو فلسطینیوں نے پکڑ لیا تھا تاہم اس نے عمارت کے ستون کو گرا کر اپنے سمیت دشمنوں کا بھی خاتمہ کر دیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے دنیا کو خطرہ ہے اسی لیے اس پر حملہ کیا گیا جب کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ’ایران اپنے شہدا کے خون کا رائیگاں نہیں جانے دے گا اور نہ ہی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو نظرانداز کرے گا۔‘
اسرائیل اور ایران کے درمیان لڑائی پانچویں روز میں داخل ہو چکی ہے اور اسرائیل کی جانب سے تہران کے رہائشیوں کو شہر سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے جس سے حالات مزید سنگین ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، تاہم یہ بات عیاں ہے کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے نام پر اپنے خفیہ ہتھیاروں کو سب پر ظاہر کر دیا ہے۔