Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا ایران ​’آبنائے ہرمز‘ کو بند کرے گا ؟

جاپان، انڈیا اور جنوبی کوریا کی تیل درآمدات کی اہم گزرگاہ بھی آبنائے ہرمز ہی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے بعد یہ سوالات مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ کیا ایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا، کیا وہ ایسا کر سکتا ہے، اس سے خطے پر کیا اثرات ہوں گے؟ ویسے تو ہر کسی کے پاس ان سوالوں کا اپنا اپنا جواب ہے تاہم منطقی جواب ایک ہی ہے جس کی جانب کورنیلیا مائر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اشارہ کیا ہے۔ یہ مضمون عرب نیوز میں شائع ہوا۔
کورنیلیا لکھتی ہیں کہ ’امریکہ کی جانب سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیے جانے کے بعد عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور فی بیرل تیل کی قیمت 70 اعشاریہ نو ڈالر ہو گئی جس پر تجزیہ کار دو گروپوں میں تقسیم ہوتے دیکھے گئے۔
 
ان میں سے ایک گروپ کا کہنا تھا کہ ’تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ طلب و رسد پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بڑھاوا کچھ وقت کے لیے ہے۔ دوسرے گروپ کا نقطہ نظر درست ثابت ہوا اور دو روز قبل تیل کی قیمت میں آٹھ فیصد کمی ہوئی اور یورپی تجارت میں 65 اعشاریہ تین ڈالر فی بیرل پر فروخت ہوا۔‘
سیاسی و زمینی تناؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ نے تیل کے حوالے سے اپنا ’خاصہ‘ کچھ وقت کے لیے کھو دیا تھا، پہلی بار دسمبر 2018 میں امریکہ تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بنا اور اس کے لیے مشرق وسطیٰ کا تیل کم اہم ہو گیا، تاہم صورت حال ایشیا کی بڑی معیشتوں میں کچھ مختلف دکھائی دی۔ سنہ 2018 میں جاپان نے 80 فیصد سے زیادہ تیل مشرق وسطیٰ سے درآمد کیا جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ خام تیل درآمد کرنے والے چین نے 44 فیصد اس خطے سے درآمد کیا۔
اسی طرح تاجرعالمی سطح پر مال کی طلب و رسد پر نگاہ رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے گذشتہ دسمبر میں پیش گوئی کی تھی کہ ’2020 میں طلب کے پیش نظر تیل کی پیداوار ایک اعشاریہ دو بیرل روزانہ تک جا سکتی ہے۔‘

آبنائے ہرمز تیل کی تجارت کے حوالے سے دنیا کی اہم ترین 10 گزرگاہوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اب اس صورت حال کو ستمبر میں آبنائے ہرمز میں جہازوں پر ہونے والے حملوں، سعودی عرب میں آرامکو پر کیے گئے حملوں اور اب امریکہ کی جانب سے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں میں بڑھنے والی کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ ایسی تصویر ابھرتی ہے۔
ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز بند کیے جانے کی بحث اپنی جگہ تاہم سامنے کی بات یہ ہے کہ چین اور جاپان اپنی تیل کی رسد کے لیے آبنائے ہرمز پر انحصار کرتے ہیں اور ان دونوں کے ایران کے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں، اس لیے ایسا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ ایران اس سمندری راستے کی بندش کے حوالے سے کوئی قدم اٹھائے۔
اسی طرح سعودی عرب اور اتحادیوں کے اوپیک (تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم) کے علاوہ ایسا ہی ایک گروپ ہے جو 10 اتحادی ممالک پر مشتمل ہے اور اس کی سربراہی روس کرتا ہے، کے کردار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ ضرورت کے حساب سے تیل کی مقدار کو بڑھایا یا کم کیا جا سکے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ زمینی و سیاسی حالات میں ہونے والی کشیدگی طلب و رسد کے مقابلے میں کم اہم ہے جب تک کہ کوئی ایسی صورت حال نہ بنے جو طویل عرصے تک چلے۔
تاجروں کا رجحان قابل تعین مقدار اور قیمتوں کی طرف ہوتا ہے جبکہ علاقائی کشیدگیاں قابل تعین نہیں ہوتیں اس لیے ان کو ایک وقتی مشکل کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے۔
اس لیے سامنے کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آبنائے ہرمز کو بند کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

آبنائے ہرمز ہے کیا؟

یہ ایک ایسی آبی گزرگاہ ہے جو تیل کی تجارت کے حوالے سے دنیا کی اہم ترین 10 گزرگاہوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر آبنائے ہرمز تزویراتی، سیاسی اور اقتصادی اہمیت کی حامل ہے، اس گزرگاہ سے دنیا بھر میں تیل کی کل رسد کا 40 فیصد گزرتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات کی بندر گاہ الفجیرہ میں دو سعودی جہازوں پر حملے سے آبنائے ہرمز کی اہمیت بڑھی۔
آبنائے ہرمز خلیج عرب میں واقع ہے۔ اس کے ایک طرف خلیج عرب، دوسری جانب خلیج عمان، بحیرہ عرب اور بحر ہند آتے ہیں۔ یہ عراق، کویت، بحرین اور قطر کی واحد بحری گزرگاہ ہے۔ آبنائے ہرمز کے شمال میں ایران (بندرعباس) اور جنوب میں سلطنت عمان (مسندم) واقع ہے۔

کچھ عرصہ قبل متحدہ عرب امارات کی بندر گاہ الفجیرہ میں دو سعودی جہازوں پر حملے سے آبنائے ہرمز کی اہمیت بڑھی۔ فوٹو: روئٹرز

خیال رہے کہ ایران 1988 سے دھمکی دے رہا ہے کہ اگر اس کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ ایران نے 2008 اور 2012 میں بھی یہ دھمکیاں دہرائیں۔ 2019 میں بھی ایران نے دھمکیوں کا اعادہ کیا لیکن کبھی ان پرعمل نہیں کیا۔
سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت اور عراق کی بیشتر تیل برآمدات آبنائے ہرمز سے ہو کر گزرتی ہیں۔ قطر سیال گیس کی بیشتر پیداوار اسی راستے سے دنیا بھر کو برآمد کرتا ہے۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب بھی ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا عندیہ دیا تو تیل کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جاپان، انڈیا اور جنوبی کوریا کی تیل درآمدات کی اہم گزرگاہ بھی آبنائے ہرمز ہی ہے۔

آبنائے ہرمز اور بین الاقوامی قانون

آبنائے ہرمز سمیت کوئی بھی آبنائے بین الاقوامی قانون کی نظر میں عالمی سمندر کا حصہ ہے۔ ساحلی ممالک کی سلامتی اور ان کے امن وامان اور قانون کو نقصان پہنچائے بغیر ہر جہاز کو آبنائے سے گزرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔
30 اپریل 1982 کو سمندری قانون کا بین الاقوامی معاہدہ منظور کیا گیا۔ اس  قانون کی دفعہ 38 میں یہ بات شامل ہے کہ ’تمام جہازوں کو آبنائے ہرمز سمیت بین الاقوامی آبناؤں سے گزرنے کا حق ہے کسی کو رخنہ اندازی کا اختیار نہیں۔ یہاں سے تجارتی یا فوجی جہازوں کو گزرنے کی آزادی ہے۔‘

شیئر: