اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے بعد اس سوال نے جنم لیا ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟
اگرچہ اس حوالے سے غیریقینی کی صورتحال ہے کہ آیا ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی برقرار رہے گی، تاہم تہران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر نئے سرے سے مذاکرات اور دیگر تنازعات پر بات چیت کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
اگلے اقدامات کے لیے نظریں صدر ٹرمپ کے سوشل میڈیا پر
بیرونی ماہرین جن سے صدارتی انتظامیہ طویل عرصے سے مشاورت کر رہی ہے،عام لوگوں کی طرح تازہ ترین واقعات پر صدر ٹرمپ کے خیالات جاننے کے لیے ان کے سوشل میڈیا کو فالو کرنے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھیں
-
جنگ بندی اعلان کے بعد ایران نے دو میزائل فائر کیے، اسرائیلی فوجNode ID: 891369
یہاں تک کہ کانگریس بھی مکمل طور پر آگاہ نظر نہیں آ رہی کیونکہ اعلیٰ ارکان کو تین ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کی سرسری اطلاعات فراہم کی گئی تھیں۔
یہی نہیں بلکہ ان حملوں کے اثرات کے بارے میں بریفنگ منگل کو اچانک ملتوی کر دی گئی تھی۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے منگل کو وائٹ ہاؤس اور صدر ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹوں پر سوالات کو بار بار موخر کر دیا۔
پیر کو صدر ٹرمپ کی جاب سے اسرائیل اور ایران کے جنگ بندی پر متفق ہونے کے اعلان نے انتظامیہ میں سے کئی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
یہ اعلان صدر ٹرمپ کی ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کی مہم سے واضح طور پر 180 ڈگری کی تبدیلی ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ
11 دن تک جاری رہنے والے اسرائیلی حملوں اور امریکی بنکر شکن بم کے حملوں سے ہونے والے نقصانات کی ابھی مکمل طور پر معلومات سامنے نہیں آئیں۔
ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک ابتدائی جائزے میں کہا گیا ہے کہ جوہری پروگرام کو صرف چند ماہ پیچھے دھکیل دیا گیا ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا جیسا کہ ٹرمپ دعویٰ کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے حوالے سے معلومات رکھنے والے افراد کے مطابق فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات پر حملوں نے خاصا نقصان پہنچایا تاہم وہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئیں۔
زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام کو سابقہ سطح پر برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو ان مراکز کی مرمت یا تعمیرِ نو میں مہینوں یا اس سے زیادہ وقت لگے گا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے ڈپٹی کمانڈر وائس ایڈمرل بریڈ کوپر، جنہیں مشرق وسطیٰ میں فوج کی قیادت کے لیے نامزد کیا گیا ہے، نے منگل کو قانون سازوں کو بتایا کہ امریکی حملوں کے باوجود ایران کے پاس اب بھی ’اہم حکمت عملی کی صلاحیت‘ موجود ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران اب بھی امریکی فوجیوں اور دنیا بھر میں امریکیوں کے لیے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں تو بریڈ کوپر نے جواب دیا کہ وہ (ایسا) کر سکتے ہیں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کرنے کے بعد فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ایران دوبارہ کبھی جوہری پروگرام پر کام نہیں کرے گا۔
تاہم، اس حوالے سے سنجیدہ سوالات ہیں کہ کیا ایران کی قیادت ان سے بات چیت کے لیے تیار ہو جائے گی۔
امریکہ ایران جوہری مذاکرات کا دوبارہ آغاز ممکن ہے
ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کے ساتھ کیا ہوگا۔
یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ ایران میں کس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ معاہدہ کر سکے یا پھر امریکہ یا دیگر کے ساتھ دوبارہ بات چیت پر آمادہ ہو۔
محکمۂ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور کونسل آن فارن ریلیشنز کے سینیئر فیلو رے تاکیہ نے کہا کہ ایرانی قیادت اس وقت انتشار کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایران کا (مذاکرات کی) میز پر واپس آنا مشکل ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک کی قیادت اور حکومت اس حد تک ہم آہنگ نہیں کہ اس وقت کسی قسم کے مذاکرات کرنے کے قابل ہو خاص طور پر امریکی نقطہ نظر سے مذاکرات جن کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے، یعنی (یورینیئم کی) صفر افزودگی۔‘
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایرانی ماہر کریم سجاد پور کا کہنا ہے کہ ’اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تہران میں کون انچارج ہے۔ کیا کوئی ایرانی مذاکراتی ٹیم نتیجہ خیز فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ (ٹرمپ) ایک ایسی ایرانی حکومت کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں جس کی طویل عرصے سے شناخت امریکہ دشمنی پر مبنی ہے۔‘
ایک امریکی اہلکار نے نام طاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر ٹرمپ کہیں اور ایران آمادہ ہو تو خصوصی ایلچی سٹیو وِٹکوف مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
امریکی حملوں کے بعد نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ تنازعات کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے سفارت کاری اب بھی صدر ٹرمپ کی ترجیح ہے۔
بعد نائب صدر جے ڈی وینس نے اتوار کو این بی سی کے ’میٹ دی پریس‘ کو بتایا تھا کہ ’ہم نے سفارت کاری کو ختم نہیں کیا۔ ایرانیوں کی طرف سے سفارت کاری کو کبھی بھی حقیقی موقع نہیں دیا گیا۔ ہمیں اُمید ہے کہ شاید یہ یہاں دوبارہ بحال ہو سکتی ہے۔ ایرانیوں کے پاس ایک انتخاب ہے، وہ امن کے راستے پر چل سکتے ہیں یا پھر وہ اس مضحکہ خیز بدمعاشی کے راستے پر چل سکتے ہیں۔‘
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اپنے تبصروں میں یہی سب دہرایا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ابھی تیار ہیں، اگر وہ ابھی فون کریں اور کہیں کہ ہم ملنا چاہتے ہیں، آئیے اس پر بات کریں، ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ صدر نے شروع سے ہی یہ واضح کر دیا کہ ان کی ترجیح اس مسئلے سے سفارتی طور پر نمٹنا ہے۔‘