Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ سعودی نوجوان جو حج کے دوران زبان کی رکاوٹوں کو دور کر رہے ہیں

مملکت کی جانب سے حجاج کی سہولت کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آتے ہیں  جن کا عقیدہ ایک ہی ہوتا ہے لیکن زبانین مختلف۔
ترکی، اردو، سواحلی اور انڈونیشی زبانوں سمیت، مکہ اور مدینہ میں بولی جانے والی زبانیں بہت زیادہ منتنوع ہے۔ بہت سے حجاج کے لیے حج کے پیچیدہ انتظامات کے دوران زبان کی رکاوٹوں پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔
یہی وہ ایشو ہے جس کے حوالے سے نوجوان سعودی رضا کار مدد کو آگے بڑھتے ہیں اور ترجمے کے ذریعے حجاج کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہوئے۔
1  سالہ دیما ابراہیم کہتی ہیں کہ ’ہم مختلف زبانیں بولتے ہیں، لیکن ہم سب یہاں ایک ہی مقصد کے لیے آئے ہیں۔‘
دیما ابراہیم کی ترجمان والی رضا کارانہ خدمات کا آغاز ایک غیر متوقع تبدیلی سے ہوا۔
’میں ابتدا میں طبی ہنگامی خدمات کی ٹیم میں شامل ہوئی تھی، مگر وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایمبولینس یونٹس پہلے ہی بھر چکے ہیں، اس لیے ہمیں سڑک پر رہنمائی کی ٹیم میں بھیج دیا گیا۔‘
ان کی ٹیم ایک ایسے ہوٹل کے قریب تعینات تھی جہاں غیر عربی بولنے والے حجاج مقیم تھے، اور چونکہ دیما دو زبانیں جانتی تھیں، ان کا کردار نہایت اہم بن گیا۔
’میں نے ویڈیو کالز کے ذریعے بہرے اور گونگے حجاج کی بھی مدد کی، اس سے میں ان افراد کی بھی خدمت کر سکی جو عام حالات میں اکیلے رہ جاتے۔‘
ان کے لیے سب سے جذباتی لمحہ وہ تھا جب انہوں نے ایک معمر خاتون کو اس کے خاندان سے ملایا جو بچھڑ گئی تھی۔
’انہیں کچھ یاد نہیں تھا اور وہ بات بھی ٹھیک سے نہیں کر پا رہی تھیں۔ آخرکار ہمیں ان کا کیمپ کارڈ ملا، ہم نے کال کی اور ان کی بیٹیاں دوڑتی ہوئی پہنچیں۔ وہ سمجھ رہی تھیں کہ وہ دوبارہ نہ ملیں گی۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جو میں کبھی نہیں بھولوں گی۔‘
دیما کا کہنا ہے کہ ’میں نے یہ سب صرف اللہ سے اجر پانے اور دعاؤں کے لیے کیا۔‘

سعد الحربی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حجاج کی جانب سے سوالات راستوں سے متعلق ہوتے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

23 سالہ سعد الحربی کو ان کے دوست نے رضاکارانہ خدمت پر آمادہ کیا۔
’اس نے کہا، ‘تم اچھی انگریزی بولتے ہو، مکہ میں رہتے ہو اور دستیاب بھی ہو، تو کیوں نہ گروپ گائیڈ اور مترجم کی حیثیت سے مدد کرو؟‘
سعد الحربی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حجاج کی جانب سے سوالات راستوں سے متعلق ہوتے تھے۔
’وہ پوچھتے کہ عرفات کیسے جانا ہے، رمی کہاں کرنی ہے، یا ایک مقام سے دوسرے مقام پر کیسے پہنچا جائے۔‘
لیکن حج ختم ہونے پر جو بات سعد کے دل میں رہی وہ تھی حاجیوں کی شکرگزاری’حج کے آخری دن، تقریباً پورے گروپ نے آ کر میرا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری مدد نے فرق ڈالا۔ یہی میرے لیے سب کچھ تھا۔‘
24 سالہ ماہا الاحمری، جو روانی سے ترکی زبان بولتی ہیں، نے مزدلفہ میں ترکی نژاد یا ترک بولنے والے بزرگ حجاج کی مدد کی۔
’ان میں سے کئی بالکل الجھن میں تھے اور سکیورٹی یا اپنے گروپ سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔‘
’بس اتنا کہ میں ان کی زبان بول سکتی تھی، انہیں فوری طور پر سکون ملا۔ ایک خاتون نے شکریے  کے طور پر میرا ہاتھ چوم لیا اور یہ لمحہ میں کبھی نہیں بھولوں گی۔‘
مملکت کی جانب سے حجاج کی سہولت کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں کثیر لسانی سائن بورڈز، ترجمے کی خصوصیت والے سمارٹ ایپس، اور تربیت یافتہ عملہ شامل ہے۔
لیکن جب جذبات کی شدت عروج پر ہوتی ہے، تو انسانی رابطہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
دیما کے مطابق، سب سے مشکل کیسز وہ ہوتے ہیں جہاں بزرگ حجاج الجھن کا شکار ہوں، یا کم سنتے ہوں، یا انہیں یادداشت کے مسائل ہوں۔
’نفر کے دنوں میں دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ لوگ آسانی سے گم ہو جاتے ہیں، اور جب وہ نہ عربی بول سکتے ہیں نہ انگریزی، تو یہ پریشانی خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔‘
وہ سعودی حکومت کے مؤثر انتظامات کی تعریف کرتی ہیں۔ ’نگرانی مراکز سے لے کر کیمپ شناختی نظام تک، سب کچھ ہمیں مؤثر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مگر کسی کو تسلی دینا، حوصلہ دینا یہ انسانی پہلو ہم نے انجام دیا۔‘

سعد الحربی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر حجاج کی جانب سے سوالات راستوں سے متعلق ہوتے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

28 سالہ فارس التُرکی، جو منیٰ میں رضاکار تھے، نے بتایا کہ انہوں نے ایک وسطی ایشیائی حاجی کی مدد کے لیے گوگل ٹرانسلیٹ کا سہارا لینا پڑا۔
’یہ مکمل نہیں تھا، مگر مددگار ضرور ثابت ہوا۔ وہ دوا تلاش کر رہے تھے اور اپنی بیماری بتانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم نے مل کر مسئلہ حل کر لیا۔‘
بہت سے رضاکاروں کے لیے ترجمہ کرنا محض خدمت نہیں، بلکہ عبادت ہے، اللہ کے مہمانوں کی خدمت ایک ایسا فریضہ ہے جو سعودی ثقافت میں روحانی مقام رکھتا ہے۔
سعد الحربی کہتے ہیں کہ ’آپ صرف الفاظ کا ترجمہ نہیں کر رہے۔ آپ جذبات کا ترجمہ کر رہے ہیں۔ آپ انہیں یہ احساس دلا رہے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔‘
دیما اس بات سے متفق ہیں کہ ’یہ جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دینے والا تھا، لیکن میری زندگی کا سب سے پُراثر تجربہ بھی یہی تھا۔ ہم مختلف زبانیں بولنے کے باوجود ایک ہی مقدس جگہ پر، ایک ہی مقصد کے لیے موجود تھے۔ یہ وحدت ہے جس کو آپ محسوس کرتے ہیں۔‘
آخر میں، زیادہ تر رضاکار کسی اعزاز یا شہرت کے طلبگار نہیں ہوتے۔ وہ گرمی، ہجوم، اور اجنبیوں کے درمیان خاموشی سے خدمات انجام دیتے ہیں۔
لیکن ان حجاج کے لیے جو راستہ بھول جاتے ہیں، الجھن یا خوف کا شکار ہوتے ہیں، ان رضاکاروں کی موجودگی ناقابلِ فراموش ہوتی ہے۔ ایک پُرسکون آواز، ایک مانوس جملہ، صبر کا ایک اشارہ۔
اور جب یہ حجاج واپس اپنے وطن لوٹتے ہیں، تو ہو سکتا ہے وہ ہر مقام یا عمارت کو یاد نہ رکھ پائیں، مگر وہ نوجوان سعودی انہیں ضرور یاد رہتا ہے جس نے ان کی بات سمجھی، ان کی مدد کی، اور انہیں اہم محسوس کروایا۔

شیئر: