ابھی انڈیا کیبل ٹی وی اور سیٹلائٹ پر نشر کی جانے والی موسیقی سے ناواقف تھا کہ جوہو کے سٹوڈیوز سے ایک انتہائی غیرمانوس آواز ابھری۔
اس چمکیلی، بھڑکیلی جادو جگانے والی آواز نے اعلان کر دیا کہ انڈیا کا اپنا ’ڈسکو کنگ‘ آ چکا ہے۔ یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ آج ہی کے دن 27 نومبر 1952 کوکلکتہ (اب کولکتہ) میں موسیقی کے خانوادے میں پیدا ہونے والے بپی لہری کی تھی۔
فلم ’ڈسکو ڈانسر‘ نے جہاں اداکار متھن چکرورتی کو سپر سٹار کی دوڑ میں پہنچا دیا وہیں اس موسیقی کی تخلیق آج فلم انڈسٹری کی مثالی کہانیوں میں شامل ہے۔
مزید پڑھیں
-
سلیم خان جنہوں نے سکرپٹ رائٹر بن کر انڈین سینما کی تاریخ بدل دیNode ID: 897530
ہدایت کار ببر سبھاش نے کئی مرتبہ اور کئی جگہ اس کہانی کو دہرایا ہے۔
ان کے مطابق ایک رات بپی لہری ایک چھوٹا سا کیسِیو کی بورڈ لے کر سٹوڈیو آئے۔ چند گھنٹوں میں انہوں نے ’آئی ایم اے ڈسکو ڈانسر‘ کی وہ مشہور دھن بنا ڈالی جس پر انڈیا کی جوان نسل جھوم اٹھی۔
بپی دا (انہیں لوگ پیار سے بلاتے تھے) بعد میں ہنستے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’کل تک لوگ کہتے تھے ڈسکو صرف باہر کی دنیا میں چلتا ہے۔۔۔ لیکن آج انڈیا بھی ڈسکو کرے گا۔‘
بپی اپنی ڈینگ یعنی شیخی بھگارنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں لیکن ان کے اس دعوے میں کوئی کمی نہیں تھی کیونکہ سچ میں پورا ملک ناچ اٹھا تھا۔ لیکن یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔

وہ بچہ جو بولنے سے پہلے بجانے لگا
مشہور موسیقار گھرانے میں پیدا ہونے والے بپی دا کا پہلا ساز سنتھسائزر نہیں بلکہ طبلہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف تین برس کی عمرمیں ہی وہ ایسی تھاپ دیتے تھے کہ سننے والے موسیقار بھی حیران رہ جاتے۔
جب کوئی پوچھتا کہ اسے کس نے سکھایا، تو ان کے والد مسکرا کر کہتے: ’کسی نے نہیں، یہ بس سنتا ہے اور بجاتا ہے۔‘
بپی کے والد اپریش لہری ایک مشہور بنگالی گلوکار تھے اور ان کی والدہ بنساری لہری موسیقار کے ساتھ ساتھ گلوکارہ بھی تھیں جنہیں کلاسیکی موسیقی اور شیاما سنگیت پر عبور حاصل تھا۔
نوجوانی میں بپی کا خواب تھا کہ انڈین فلموں میں عالمی رنگ کے سُر شامل کرے۔
ایک مرتبہ امریکہ کے سفر میں وہ نیویارک میں ایک ڈسکو کے باہر کھڑے ہو کر اندر سے آتی دھڑکتی ہوئی دھُنیں سن رہے تھے کہ اسی عالم وجد میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’ایک دن۔۔۔ انڈیا بھی ایسی ہی دھنوں پر ناچے گا۔‘
جب کشور کمار نے فون کیا
بپی دا کے پسندیدہ واقعات میں سے ایک وہ دن تھا جب ان کے رشتے دار اور بالی وڈ کے لیجنڈ گلوکار اور اداکار کشور کمار نے فون کر کے کہا ’تو کچھ الگ کر رہا ہے۔۔۔ اس کو جاری رکھ۔‘
یہ صرف تعریف نہیں تھی بلکہ یہ اجازت نامہ تھا، ایک حوصلہ افزائی جس نے نوجوان بپی لہری کو نئی راہیں دکھا دیں۔

بپی کی پہچان سونا، لیکن ان کے لیے خوش قسمتی
بپی لہری کہا کرتے تھے کہ ’سونا میرے لیے خوش قسمتی ہے۔‘
انہیں گلے میں کلائیوں پر سونے کی موٹی موٹی چین کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا۔ مگر بپی لہری کا اصل جادو ان کی باہری سجاوٹ میں نہیں تھا بلکہ اس دل میں تھا جس میں یہ یقین تھا ان کی موسیقی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لے آتی ہے۔
لوگ سونے سے ان کی محبت کا مذاق اڑاتے۔ بھاری بھرکم سونے کے ہار، چوڑے بریسلیٹس، ہر انگلی میں انگوٹھی۔
اس پر وہ سادگی سے جواب دیتے ’ایلوس پہنتا تھا، میں بھی پہنتا ہوں۔‘
اس نے ایک بار دعویٰ کیا تھا کہ ’ہالی وڈ میں ہر کوئی مجھے جانتا ہے‘ اور یہ کہ انہیں وہٹنی ہیوسٹن اور جیکسن فائیو کے ساتھ گانے کی پیشکش ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اس حلیے کے لیے ایلوس پریسلے کے مقروض ہیں اور وہ ’دی کنگسمین: دی گولڈن سرکل‘ میں ایلٹن جان کے حصے کو ہندی میں ڈب کرنے کی پیشکش کو ٹھکرا نہیں سکتے کیونکہ ’ہم دونوں بہت ملتے جلتے ہیں، ہمارا انداز، یا لباس اور جس طرح سے ہم گاتے ہیں' سب ملتا جلتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے سونے نے بظاہر مائیکل جیکسن کو بھی متاثر کیا۔
ان کے مطابق 1990 کی دہائی میں اپنے کنسرٹ کے سفر کے دوران ایک ملاقات میں سپرسٹار مائیکل نے ان کے سونے کے زیورات کو چھوا اور کہا ’او گاڈ! واٹ اے چین!‘
بپی لہری ڈاٹ کام کے مطابق انہیں پہلا موقع بنگالی فلم دادو (1972) میں ملا اور پہلی ہندی فلم جس کے لیے انہوں نے موسیقی ترتیب دی وہ ننھا شکاری (1973) تھی۔
جس فلم نے انہیں بالی وڈ میں قائم کیا وہ طاہر حسین کی ہندی فلم ’زخمی‘ (1975) تھی، جس کے لیے انہوں نے موسیقی ترتیب دی اور پلے بیک سنگر کے طور پر بھی کام کیا۔
اس فلم نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ہندی فلم انڈسٹری میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
وہ محمد رفیع اور کشور کمار کے ساتھ بھی گانے کے لیے جانے گئے۔
انہوں نے لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے جیسے نامور گلوکاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔

وجے بینیڈکٹ اور شیرون پربھاکر کو بپی نے بالی وُڈ میوزک انڈسٹری میں لانچ کیا جبکہ انہوں نے اپنی کمپوزیشن کے ذریعے علیشا چنائے اور اوشا اتھپ کے لیے بھی شہرت کی راہ ہموار کی۔
ہندی میوزک انڈسٹری پر بپی لہری کا راج 1990 کی دہائی تک جاری رہا جب پرکاش مہرا نے متھن چکرورتی اداکاری والی ’دلال‘ کو موسیقی فراہم کی۔ فلم کا گانا ’غٹر غٹر‘ کافی ہٹ ہوا تھا۔
امریکہ میں لوگ بپی لہری کے بارے میں ’بپی فرام بامبے‘ کہتے تھے۔
دو ہزار کی دہائی میں جب وہ لاس اینجلس کے سٹوڈیوز میں ریکارڈنگ کرتے تو ٹیکنیشنز انہیں حیرت سے دیکھتے۔ ان کے حلیے اور بشرے کو دیکھ کر ایک انجینیئر نے ایک بار ہنستے ہوئے کہا تھا ’وہ اندر ایسے آتے ہیں جیسے اپنے ساتھ ایک پارٹی ساتھ لائے ہوں۔‘
مگر جب وہ سنتھیسائزر پر بیٹھ کر دھُن چھیڑتے تو کمرہ خاموش ہو جاتا۔

وہ اکثر کہا کرتے تھے ’لوگ میرے سٹائل پر ہنستے ہیں لیکن انہیں میرے دل کی بھی سننی چاہیے۔‘
اگرچہ کووڈ کی وبا کے بعد بپی کی وفات ہو گئی لیکن زندگی کے آخری برسوں میں بھی وہ نئے فنکاروں اور نئے سُروں کی تلاش میں رہتے تھے۔
جب ان کا گیت ’جمی جمی‘ برسوں بعد عالمی سطح پر دوبارہ مشہور ہوا تو انہوں نے مسکرا کر بس اتنا کہا ’اچھی موسیقی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔‘

بپی لہری اپنے پیچھے ایسی دھنیں چھوڑ گئے جو آج بھی محفلوں کی جان ہیں، ان کے سُر ان کے سونے کی طرح چمکتے ہیں اور ان کی آواز آج بھی نوجوان دلوں کو گرم رکھتی ہے۔
وہ صرف موسیقی نہیں بناتے تھے، بلکہ خوشی کی دھنیں بناتے تھے۔
معروف اردو شاعر مجاز کے الفاظ میں بس اتنا کہہ سکتے ہیں؛
ساری محفل جس پہ جھوم اٹھی مجازؔ
وہ تو آواز شکست ساز ہے












