Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد ایئرپورٹ کا انتظام امارات کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟

کمپنی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ایئرپورٹ کے ڈھانچے اور سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کرے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے انتظامی معاملات متحدہ عرب امارات کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان بین الحکومتی (جی ٹو جی) معاہدے کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ 
اس فیصلے کی منظوری باضابطہ طور پر کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین نے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں 28 اگست کو دی۔
معاہدے کی عملی تفصیلات طے کرنے کے لیے وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کی قیادت میں ایک ٹیم کو ابوظبی بھیجا جائے گا۔
یہ اقدام پاکستان کی معاشی اصلاحات اور نجکاری پالیسی میں ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کے ذریعے حکومت غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور قومی ایئرپورٹس کے معیار کو بین الاقوامی سطح پر لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ جو سنہ 2018 میں بنایا گیا تھا، پاکستان کا سب سے بڑا اور جدید ترین ہوائی اڈہ ہے۔
اس ہوائی اڈے کی تعمیر کا مقصد ملک کو ایک مرکزی فضائی مرکز (ایوی ایشن ہب) فراہم کرنا تھا جو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی پروازوں کو بھی سہولت دے سکے۔
ایئرپورٹ کو سالانہ ایک کروڑ 50 لاکھ مسافروں کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا اور اس کی توسیع کے بعد یہ استعداد 2 کروڑ 50 لاکھ تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ تاہم عملی طور پر اس وقت یہ ایئرپورٹ تقریباً 90 لاکھ مسافروں کو سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق آپریشنل مسائل، انتظامی کمزوریاں اور مالی وسائل کی کمی اس آؤٹ سورسنگ کے فیصلے کی بنیادی وجوہات ہیں۔

ایئرپورٹ پر بین الاقوامی معیار کے ریستوران اور مسافر لاؤنجز بھی قائم کیے جائیں گے (فائل فوٹو: روئٹرز)

معاہدے کے تحت منتخب ہونے والی اماراتی کمپنی کو ایئرپورٹ کی مسافروں سے متعلق تمام خدمات فراہم کرنے کا مکمل اختیار ہو گا۔
ان خدمات میں ٹرمینل آپریشنز، پارکنگ، کارگو سروسز، صفائی، گراؤنڈ ہینڈلنگ اور اندرونی تجارتی سرگرمیاں شامل ہیں۔
اس کمپنی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ایئرپورٹ کے ڈھانچے اور سہولیات کو جدید خطوط پر استوار کرے۔
عالمی برانڈز کے ریٹیل سٹورز اور ڈیوٹی فری شاپس کھولنے کے علاوہ بین الاقوامی معیار کے ریستوران اور مسافر لاؤنجز بھی قائم کیے جائیں گے تاکہ ایئرپورٹ کا ماحول عالمی معیار سے ہم آہنگ ہو سکے۔
اس منصوبے کے نتیجے میں ایئرپورٹ کی استعداد کار بڑھا کر سالانہ ایک کروڑ 30 لاکھ مسافروں کو سہولت فراہم کی جا سکے گی۔
ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کے باوجود سکیورٹی اور ایئر ٹریفک کنٹرول کے تمام اختیارات سول ایوی ایشن اتھارٹی ہی کے پاس رہیں گے۔

پاکستان کو اپنے ہوائی اڈوں سے سالانہ تقریباً 30 ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

حکام نے وضاحت کی ہے کہ لینڈنگ اور ٹیک آف کے تمام معاملات، نیویگیشن سسٹم اور ایئرپورٹ کے اثاثوں کی ملکیت پاکستان کی ریاست کے پاس ہی رہے گی۔ 20 سالہ معاہدے کے اختتام پر جو بھی نئی سہولیات یا اثاثے کمپنی فراہم کرے گی وہ حکومت پاکستان کی ملکیت بن جائیں گے اور کمپنی خالی ہاتھ واپس جائے گی۔
سول ایوی ایشن حکام کے مطابق فی الحال پاکستان کو اپنے ہوائی اڈوں سے سالانہ تقریباً 30 ارب روپے کی آمدن ہوتی ہے لیکن چونکہ مجوزہ معاہدہ ڈالرز میں طے کیا جائے گا، اس لیے توقع ہے کہ اس سے قومی خزانے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو امید ہے کہ یہ معاہدہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھائے گا اور ملک میں مزید بین الاقوامی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے گا۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ یہ معاہدہ صرف مالی فائدے کے لیے نہیں بلکہ قومی مفاد کے تحت کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق یہ اقدام اسلام آباد ایئرپورٹ کو خطے میں ایک جدید فضائی مرکز میں تبدیل کرے گا، مسافروں کی آمد و رفت کو آسان بنائے گا اور پاکستان کے ایوی ایشن سیکٹر کو عالمی معیار کے قریب لے جائے گا۔

شیئر: