پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے بی این پی کے جلسے کے باہر خودکش حملے کے خلاف 8 ستمبر کو بلوچستان بھر میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی، بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی، اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، تحریک انصاف کے صوبائی صدر داؤد شاہ کاکڑ اور مجلس وحدت المسلمین کے علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا کہ ہڑتال کے دوران نہ صرف سڑکیں، ٹرینیں اور کاروبار بند رہیں گے بلکہ ہوائی سفر کو بھی روکا جائے گا۔
رہنماؤں نے کہا کہ ’بی این پی کے جلسے پر حملہ دراصل صوبے کی سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے کی سازش ہے مگر دھماکوں اور دباؤ سے ہماری پرامن، آئینی اور جمہوری جدوجہد نہیں رکے گی۔‘
مزید پڑھیں
-
جعفر ایکسپریس پر پھر حملہ، کوئٹہ کے لیے ٹرینوں کی آمدورفت معطلNode ID: 893204
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ شاہوانی سٹیڈیم کے قریب خودکش حملہ انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کون سا جرم کیا ہے؟ ہم تو صرف جلسہ کررہے تھے جو ہمارا بنیادی اور آئینی حق ہے۔ اگر ہم سب دھماکے میں مارے جاتے تو اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوتا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں مارا گیا تو ہماری اپنے بچوں اور کارکنوں کو وصیت ہے کہ ہمارے قاتل وہ لوگ اور ادارے ہیں جو جمہوریت اور آئین کو نہیں مانتے اور انسانوں پر انسانوں کی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اس کے وسائل پر تمام پاکستانیوں کا حق ہے لیکن ان کے مالک مقامی لوگ اور پہلا حق بھی ان کا ہے ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہمیں جائز حصہ دیا جائے یہاں کے اس کے بعد چاہے امریکا یا چین کے ساتھ معاہدے ہوں ہمیں فرق نہیں پڑتا۔‘
محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب برابر ہے کوئی فاتح اور مفتوح نہیں یہاں کوئی غلام اور آقا کا رشتہ نہیں اگر یہ جبر اور طاقت کا رشتہ رکھنا ہے تو غلام موقع ملتے ہی یہ زنجیریں توڑ دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم زکوٰۃ یا خیرات نہیں مانگتے ہمیں اپنے وسائل اور سرحدوں پر آزاد تجارت کا حق دیا جائے۔ ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریں۔‘
پشتونخوا میپ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارا گناہ صرف یہ ہے کہ ہم وسائل پر عوامی حق، پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کے دفاع کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، یہی حلف فوج کے ہر سپاہی نے بھی لیا ہے۔ یہاں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر تو سینکڑوں لوگوں کو مار اگیا لیکن آئین توڑنے والوں سے آج تک کوئی سوال نہیں کیا گیا حالانکہ آئین شکنی سب سے بڑی غداری ہے۔‘

ان کا کہنا تھاکہ ’ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور آئین کی حکمرانی کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔ اگر ریاستی ادارے سیاست کرنا چاہتے ہیں تو وردی اتار کر اپنی پارٹی بنائیں۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے گول میز کانفرنس بلائی جائے جس میں سیاستدان، فوج، عدلیہ، مذہبی رہنما اور میڈیا شریک ہو کر آئینی اصلاحات اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں۔
محمود اچکزئی نے کہا کہ ’اگر ہم لوگوں کے جذبات سے کھیلنا چاہیں تو ایک دن میں کوئٹہ کے تمام تھانوں کو جلاسکتے ہیں لیکن ہم پرامن احتجاج کے قائل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 8 ستمبر کو بلوچستان بھر میں ایسا پرامن احتجاج ہوگا کہ گوادر سے چمن تک سڑکیں عوام سے بھری ہوں گی اور دنیا دیکھے گی کہ یہ زمین اور راستے ہمارے ہیں۔ اگر ہمارے بچوں کو مارا گیا تو پھر ہم کسی کو یہاں سے گزرنے نہیں دیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’8 ستمبر کو بلوچستان بھر میں ایسا پرامن احتجاج ہوگا کہ گوادر سے چمن تک سڑکیں عوام سے بھری ہوں گی اور پوری دنیا کو یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ زمین اور یہ راستے ہمارے ہیں۔ اگر ہمارے بچوں کو مارا جائے گا تو ہم پھر یہاں سے کسی کو گزرنے نہیں دینگے۔ انہوں نے ٹرانسپورٹرز اور تاجروں سے اپیل کی کہ وہ ٹرک اور بسیں نہ چلائیں، ٹرینیں اور پروازیں بھی بند رکھی جائیں۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے کہا کہ جلسے کے شرکا ہاتھوں میں جھنڈے لیے ہوئے صرف سیاسی نعرے لگا رہے تھے۔ کسی کے پاس بندوق نہیں تھی اور نہ ہی کسی نے ریاست مخالف نعرے لگائے، لیکن مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے پر انہیں خون میں نہلا دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل 29 مارچ کو مستونگ کے علاقے لکپاس میں بھی خودکش حملہ کیا گیا تھا جو عوام کی دعاؤں اور کارکنوں کی کوششوں سے ناکام ہوا۔ لیکن ساڑھے چار ماہ گزرنے کے باوجود اس کی تحقیقات نہ کی گئیں۔ اگر اس واقعے کی چھان بین کی جاتی تو 2 ستمبر کا سانحہ پیش نہ آتا۔
سردار اختر مینگل نے حملے میں ملوث عناصر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم ڈوب جاتے تو تمہارا نام و نشان بھی مٹ جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر سریاب میں دہشت گردی کا خطرہ تھا تو ہمیں نسبتاً محفوظ ہاکی گراؤنڈ میں جلسے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کو وہاں جلسے کی اجازت دی گئی لیکن ہمیں نہیں۔ اگر خطرہ تھا تو حکومت کا کام صرف اطلاع دینا نہیں بلکہ تدارک کرنا بھی تھا، جو وہ کرنے میں ناکام رہی۔‘
بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’سرکار نے ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ہم پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کی۔ کہا گیا کہ ہم نے جلسہ ناکام ہونے پر خود حملہ کرایا۔ اگر ہماری جدوجہد ناکام ہوتی تو ہم خودکش حملہ نہیں بلکہ خودکشی کر لیتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کبھی ہمارے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں، کبھی ای سی ایل میں نام ڈالا جاتا ہے اور کبھی خواتین کو گھسیٹ کر جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پر قدغن لگائی جاتی ہے اور دھماکوں، اغوا، ٹارگٹ کلنگ اور گرفتاریوں کے ذریعے کارکنوں میں خوف پھیلایا جا رہا ہے لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ نقصان صرف بی این پی کا نہیں بلکہ پورے صوبے کا ہے۔ یہ شہداء صرف بی این پی کے نہیں بلکہ بلوچستان کے ہیں اور ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ’میں صوبے کی تمام قوموں اور مکاتبِ فکر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ثابت کریں یہ شہدا لاوارث نہیں ہیں۔‘
نیشنل پارٹی کے میر کبیر محمد شہی نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا ہے، وسائل پر ان کا اختیار تسلیم نہیں کیا گیا اور ان کی سیاسی جدوجہد پر پابندیاں لگائی گئیں۔ یہ رویہ اگر جاری رہا تو حالات مزید سنگین ہوجائیں گے۔
آل پارٹیز کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ لاپتا افراد کو بازیاب کیا جائے، عمران خان سمیت تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے اور عوام کو پرامن سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے۔