سعودی عرب اور فرانس کی تجویز پر دو ریاستی حل: اقوام متحدہ کی بین الاقوامی سربراہی کانفرنس 22 ستمبر کو ہوگی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعے کو ایک ووٹنگ کے ذریعے دو ریاستی حل پر اعلیٰ سطحی بین الاقوامی سربراہی کانفرنس 22 ستمبر کو دوبارہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ عمل اس برس موسم گرما کے دوران مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی پرتشدد صورتحال کے باعث معطل کر دیا گیا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق یہ فیصلہ سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے پیش کردہ ایک تجویز کے تحت کیا گیا، جسے اسرائیل اور امریکہ کی سخت مخالفت کے باوجود منظور کر لیا گیا۔ دونوں ممالک نے اس فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو سیاسی طور پر جانبدار اور امن کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
فلسطین کے مسئلے کے پرامن حل کے لیے منعقدہ یہ اعلٰی سطحی بین الاقوامی کانفرنس پہلی بار جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس کے دوران منعقد ہوئی تھی، تاہم 30 جولائی کو اسے معطل کر دیا گیا تھا۔ اب یہ کانفرنس جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے دوران دوبارہ منعقد ہو گی، جس میں سربراہانِ مملکت اور حکومتوں کی سطح پر شرکت متوقع ہے، تاکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے ایک فوری عالمی کوشش کو فروغ دیا جا سکے۔
ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ میں سعودی نمائندے عبدالعزیز الوصیل نے ریاض اور پیرس کی جانب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام کسی مخصوص فریق کے خلاف نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون اور متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کا مظہر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’فلسطین میں زمینی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیاں، انسانی المیے میں شدت اور امن کی امیدوں کا زوال ہماری اجتماعی ذمہ داری کی فوری نوعیت کو اجاگر کرتا ہے۔‘
’اس عمل کو مزید تعطل کا شکار نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ کانفرنس کی بحالی بین الاقوامی برادری کی سنجیدہ، مستقل اور ذمہ دارانہ عزم کی غماز ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیل نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس تجویز کے حامیوں پر ’طریقہ کار کے حوالے سے دباؤ ڈالنے‘ اور شفافیت کے فقدان کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی نمائندے نے کہا کہ ’یہ امن قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں بلکہ ایک دکھاوا ایک تشہیری حربہ ہے۔‘
’یہ اقدام امن کو آگے بڑھانے کے بجائے جنگ کے طول پکڑنے، حماس کو شہ دینے اور سنجیدہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اس طرح کے اقدامات عسکریت پسندوں کو غلط پیغام دیتے ہیں، اور دہشت گرد تنظیمیں جیسے کہ حماس، حالیہ عالمی کوششوں کو اپنے طریقہ کار کی توثیق کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔‘
امریکہ نے بھی جنرل اسمبلی کے اس فیصلے کی باضابطہ مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس اور اس کی بنیاد بننے والی قرارداد، دونوں کی قانونی حیثیت مشکوک ہے۔
امریکی مندوب کا کہنا تھا کہ ’ہم اس تجویز کو صرف ایک دن قبل ایجنڈے میں شامل دیکھ کر حیران اور مایوس ہوئے۔ اس فیصلے کے متن، وقت بندی اور مالی اثرات کے بارے میں شفافیت کا شدید فقدان ہے۔‘
انہوں نے کانفرنس کی بحالی کو ایک ’غیرموزوں وقت پر کی گئی تشہیری کوشش‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ اقدام حماس کو مزید شہ دے سکتا ہے اور تنازع کو طول دے سکتا ہے۔
امریکی مندوب نے واضح کیا کہ واشنگٹن اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔