فقیرا بی بی نے خیمہ نمبر 170 میں جاتے ہی چند گھنٹے قبل پیدا ہونے والے بچے کو اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ’مجھے پہلی بار دائی کا کام کرنا پڑا ہے اور اس بچے کا جنم میرے ہاتھوں ہوا ہے۔‘
لاہور کے علاقے چوہنگ کے قریب موہلنوال میں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے لیے خیمہ بستیاں قائم کی گئی ہیں۔
موہلنوال کے ایک اینٹوں کے بھٹے پر قائم خیمہ بستی کے 312 خیموں میں کئی خاندان دن رات گزر بسر کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سیلاب متاثرین کے لیے یورپی یونین کی 35 کروڑ روپے امدادNode ID: 894093
انہی خیموں میں سے ایک 170 نمبر کا خیمہ ہے جو محمد عرفان اور ان کے خاندان کا عارضی ٹھکانا ہے۔ اس خیمے میں گزشتہ روز دوپہر دو بجے کے قریب محمد عرفان کے آٹھویں بچے کی پیدائش ہوئی۔
محمد عرفان ایک رکشا ڈرائیور ہیں اور ان کی عمر 35 برس ہے۔ وہ اپنی والدہ، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ لاہور کی ایک نجی سوسائٹی میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔
محمد عرفان کے لیے اپنے گھر کا ماہانہ سات ہزار روپے کرایہ ادا کرنا آسان نہیں تھا لیکن وہ محنت کر کے گھر چلا رہے تھے۔
اس سے قبل وہ مزدوری کرتے تھے لیکن رکشا چلانے سے ان کی آمدنی میں کچھ بہتری آئی۔ تاہم زندگی نے انہیں ایک ایسی آزمائش سے دوچار کیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
سیلاب آیا تو محمد عرفان کا گھر مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا۔
انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارا سارا سامان، ضروری دستاویزات اور برسوں کی جمع پونجی پانی کی نذر ہو گئی۔ جب سیلاب آیا تو مجھے سب سے زیادہ فکر میری حاملہ اہلیہ کی تھی۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب خیریت سے خیمہ بستی پہنچ گئے۔‘

ان کی آواز میں ایک عجیب سے اطمینان کی جھلک تھی جیسے وہ اس تباہی کے باوجود زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
محمد عرفان کی اہلیہ خیمہ بستی میں اس وقت مچھر دانی کے اندر اپنے نومولود بچے کے ساتھ آرام کر رہی ہیں۔
ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد انہیں صحت مند قرار دیا ہے اور بچہ بھی خیریت سے ہے۔
محمد عرفان کے مطابق ان کے ہاں تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے بعد یہ آٹھواں بچہ پیدا ہوا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد ہی ان کے ہاں پہلی بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی اور اب یہ نیا مہمان ان کی زندگی میں ایک نئی امید بن کر آیا ہے۔
خیمہ بستی میں بچے کی پیدائش ایک غیرمعمولی صورتِ حال میں ہوئی۔ عرفان کی 50 سالہ والدہ رشیدہ بی بی اس موقع پر ننھے مہمان کی آمد کے لیے تیار تھیں تاہم محمد عرفان پریشان تھے۔
وہ اپنی پریشانی سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’سیلاب کے وقت بھی مجھے فکر تھی اور خیمہ بستی میں آنے کے بعد بھی مجھے فکر لاحق تھی۔ گزشتہ روز میں معمول کے مطابق کچھ سامان لینے مارکیٹ گیا ہوا تھا کہ اسی دوران میری اہلیہ کی طبیعت بگڑ گئی۔‘
فقیرا بی بی اُن کی بھابھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’یہ ان کی زندگی میں پہلا موقع تھا جب انہوں نے کسی ڈیلیوری میں کسی ماں کی مدد کی۔‘

وہ بچے کی پیدائش سے متعلق بتاتی ہیں کہ ’جب عرفان کی اہلیہ کی طبیعت خراب ہونے لگی تو ہم نے خیمہ بستی کی انتظامیہ کو فوراً اطلاع دی لیکن وقت کم تھا تو ہم نے خود ہی انتظامات کیے اور بچہ پیدا ہو گیا۔ بعد میں خاتون ڈاکٹر آئیں اور انہوں نے چیک اپ کے بعد دوائیاں دیں۔ تب تک سب کچھ خیریت سے ہو چکا تھا۔‘
محمد عرفان کی والدہ رشیدہ بی بی ایک خوش مزاج خاتون ہیں۔ وہ اپنی خوشی کا اظہار منفرد انداز میں کرتی ہیں۔
محمد عرفان نے جب بچے کے لیے تجویز کردہ نام ’عبداللہ‘ بتایا تو رشیدہ بی بی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس کا نام سیلاب خان رکھیں گے کیوں کہ یہ ایسے حالات میں پیدا ہوا ہے کہ ہم سب چھت سے بھی محروم ہیں۔‘
یہ سن کر خیمے میں موجود سب لوگ قہقہے لگانے لگے۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جو اس خاندان کی ہمت اور زندگی سے محبت کو ظاہر کر رہا تھا۔ سیلاب نے ان کا گھر چھین لیا لیکن ان کی ہنسی اور امید کو نہیں چھین سکا۔
رشیدہ بی بی نے اس دوران ننھے عبداللہ کو لوری سنا کر سلایا۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سی مٹھاس تھی۔ رشیدہ بی بی کہتی ہیں کہ ’یہ بچہ ہمارے لیے اللہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ سیلاب نے سب کچھ لے لیا لیکن یہ ننھا مہمان ہمیں زندگی کی خوبصورتی یاد دلا رہا ہے۔ یہ مسائل ختم ہوجائیں گے اور ہم جلد اپنی چھت تلے آ جائیں گے۔‘
محمد عرفان کہتے ہیں کہ ’وہ سات دن بعد بچے کا باقاعدہ نام رکھیں گے۔ انہوں نے ’عبداللہ‘ کے نام پر اتفاق کیا ہے لیکن رشیدہ بی بی کا ’سیلاب خان‘ والا فقرہ اب بھی پورے خاندان کے درمیان ہنسی مزاح کا موضوع بنا ہوا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ محمد عرفان کے لیے زندگی اب ایک نئے امتحان سے دوچار ہے۔ آٹھ بچوں کی پرورش، خیمہ بستی میں عارضی زندگی اور مستقل رہائش کا نہ ہونا ان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں پورا دن رکشا چلاتا یا مزدوری کرتا ہوں لیکن زیادہ پیسے نہیں کما پاتا۔ ہمارا سارا سامان اور دستاویزات سیلاب میں بہہ گئے۔ اب ہمارے پاس کچھ نہیں بچا۔‘

وہ یہ باتیں سرگوشی کی طرح کرتے جا رہے تھے۔ ان کی آواز میں تھکاوٹ اور مایوسی کے آثار نمایاں تھے۔
عرفان کا کہنا ہے کہ ’ان کے لیے جب تک مستقل رہائش کا انتظام نہیں ہو جاتا تو وہ خیمہ بستی میں ہی رہیں گے۔ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں لیکن میں اپنے بچوں کی اچھی پرورش کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘
خیمہ بستی کی انتظامیہ نے بھی اس موقع پر فوری ردعمل دیا۔عرفان کی اہلیہ کی جب طبیعت خراب ہوئی تو انہوں نے فوراً طبی امداد کا بندوبست کیا۔ خاتون ڈاکٹر کی آمد اور دوائیوں کی فراہمی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ماں اور بچہ دونوں خیریت سے رہیں۔
یہ خیمہ بستی چوہنگ میں قائم کی جانے والی ان چند خیمہ بستیوں میں سے ایک ہے جہاں سیلاب متاثرین کو عارضی پناہ دی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عبداللہ اس بستی میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ ہے۔ اس سے قبل ضلع بونیر کے گنشال میں قائم ایک اور خیمہ بستی میں ایک بچے کا عقیقہ ہو چکا ہے۔