Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حالات کے تناظر میں اسرائیل کا حقیقت پسندانہ مطالعہ

’یہ پورا منظرنامہ تمہارے خلاف نہیں ہے، اس کا کچھ حصہ تمہارے حق میں بھی ہے‘ ( فوٹو: سبق)
اسرائیل کی غزہ میں بھیانک جنگ نے اب تک کم از کم 64,455 افراد کی جان لے لی ہے جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار وزارتِ صحت (جو حماس کے زیرانتظام ہے اور جنہیں اقوامِ متحدہ مستند مانتی ہے) نے فراہم کئے ہیں۔
یہ تعداد اس وقت تک کی ہے جب تک اسرائیلی کارروائی دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کے اجلاس کے مقام پر نہیں ہوئی تھی جو کہ قطر کی زمینی اور فضائی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ابھی تک اس حملے کے نتائج واضح نہیں ہیں مگر اتنا یقینی ہے کہ غزہ کی جنگ اس کارروائی سے پہلے ایک نہایت نازک سیاسی مرحلے پر تھی۔
گزشتہ پیر کو باخبر ذرائع نے ’العربیہ – الحدث‘ کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق تجویز حماس کو موصول ہوئی ہے۔
اس مجوزہ منصوبے کے مطابق تمام یرغمالیوں کو خواہ زندہ ہوں یا ہلاک، دستخط کے 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے گا۔
اسی دوران اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے اعلان کیا کہ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل نے اس کی جنگ بندی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی دو ٹوک کہا کہ یہ حماس کے لیے ’آخری وارننگ‘ ہے تاکہ وہ قیدیوں کو رہا کرے۔
یہ تجویز اس کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے چند روز پہلے ثالثوں کے ذریعے حماس کو پہنچائی تھی۔
اسرائیلی فوج کے مطابق، اس وقت غزہ میں اب بھی 47 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 25 ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ سب ان 251 افراد میں شامل ہیں جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں قید کئے گئے تھے۔
اب ہمارے سامنے ایک نیا منظرنامہ ہے جو غزہ کے تنازع اور مجموعی طور پر فلسطینی مسئلے کے حل کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔
یہ منظرنامہ ایسے ردعمل کا تقاضا کرتا ہے جو واقعے کے پیمانے کے مطابق ہو اور جیسا کہ قطری ترجمان ماجد الانصاری نے کہا، اس ’بے احتیاط‘ پالیسی کے مضمرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے سامنے کوئی روک نہیں، وہ جو کچھ اپنے تحفظ کے لیے ضروری سمجھے، کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کرتا ہے اور اس کے پیچھے واضح امریکی حمایت موجود ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے۔
حماس کی سیاسی کارکردگی میں کھلا ضعف ہے اور حقیقت پسندی سے دوری دکھائی دیتی ہے۔
اسرائیلی جنون کا مقابلہ اسی طرح کے جنون سے کرنے کے بجائے حالات کو عقلمندی اور حقیقت پسندی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جیسا کہ کہا گیا: ’اپنے دشمن کو پہچانو‘۔ دشمن کی طاقت اور کمزوریوں کو سمجھو۔
اسرائیل کی طاقت، نیتن یاہو اور اس کے ساتھیوں کی قیادت میں، سب کے سامنے ہے، غزہ، لبنان، ایران، یمن اور اب قطر پر تباہ کن حملے، لامحدود جاسوسی آپریشن اور مضبوط امریکی حمایت۔
لیکن اس کی کمزوریاں بھی اتنی ہی نمایاں ہیں، مغرب میں اسرائیلی بیانیے کی تبدیلی، اخلاقی حیثیت کا خاتمہ اور قانونی و بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت۔
یہ عمل اب پھل دینے لگا ہے، مغربی جامعات اور اداروں میں بحث، بین الاقوامی سطح پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا رجحان، سعودی، فرانسیسی کوششوں کے بعد اسرائیل پر اخلاقی، سیاسی اور ابلاغی دباؤ میں اضافہ۔
یہ وہ حقیقت ہے جسے جیسا ہے ویسا دیکھنا ہوگا۔
یہ پورا منظرنامہ تمہارے خلاف نہیں ہے، اس کا کچھ حصہ تمہارے حق میں بھی ہے۔
اصل بات تمہاری صحیح بصیرت اور موثر عمل پر منحصر ہے۔
(بشکریہ : الشرق الاوسط)

شیئر: