اسرائیل کی غزہ میں بھیانک جنگ نے اب تک کم از کم 64,455 افراد کی جان لے لی ہے جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار وزارتِ صحت (جو حماس کے زیرانتظام ہے اور جنہیں اقوامِ متحدہ مستند مانتی ہے) نے فراہم کئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیل کا حملہ خطے کے لیے ’اہم ترین موڑ‘ ہے، قطری وزیراعظمNode ID: 894429
یہ تعداد اس وقت تک کی ہے جب تک اسرائیلی کارروائی دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کے اجلاس کے مقام پر نہیں ہوئی تھی جو کہ قطر کی زمینی اور فضائی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ابھی تک اس حملے کے نتائج واضح نہیں ہیں مگر اتنا یقینی ہے کہ غزہ کی جنگ اس کارروائی سے پہلے ایک نہایت نازک سیاسی مرحلے پر تھی۔
گزشتہ پیر کو باخبر ذرائع نے ’العربیہ – الحدث‘ کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق تجویز حماس کو موصول ہوئی ہے۔
اس مجوزہ منصوبے کے مطابق تمام یرغمالیوں کو خواہ زندہ ہوں یا ہلاک، دستخط کے 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے گا۔
اسی دوران اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے اعلان کیا کہ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل نے اس کی جنگ بندی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی دو ٹوک کہا کہ یہ حماس کے لیے ’آخری وارننگ‘ ہے تاکہ وہ قیدیوں کو رہا کرے۔
یہ تجویز اس کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف نے چند روز پہلے ثالثوں کے ذریعے حماس کو پہنچائی تھی۔
اسرائیلی فوج کے مطابق، اس وقت غزہ میں اب بھی 47 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 25 ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ سب ان 251 افراد میں شامل ہیں جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں قید کئے گئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
قطر: اسرائیل کا دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر فضائی حملہNode ID: 894401