اسرائیل کی جانب سے منگل کو قطر پر ایک فضائی حملے کے ذریعے حماس کے سیاسی رہنماؤں کو ہلاک کرنے کی کوشش سے مشرق وسطیٰ میں اس کی فوجی کارروائی میں اضافہ ہوا ہے۔ حملے کو امریکہ نے یکطرفہ قرار دیا اور کہا کہ یہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کو آگے نہیں بڑھاتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیلی حملے کے ’ہر پہلو سے بہت ناخوش ہیں‘ اور بدھ کو اس معاملے پر مکمل بیان دیں گے۔
واشنگٹن کے ایک ریستوران میں پہنچنے پر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں اس کے بارے میں پرجوش نہیں ہوں۔ یہ اچھی صورتحال نہیں ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہم یرغمالیوں کی واپسی چاہتے ہیں، لیکن آج جس طرح سے یہ ہوا ہے اس سے ہم خوش نہیں ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
شمالی غزہ میں ٹینک پر حملے میں چار اسرائیلی فوجی ہلاکNode ID: 894372
-
قطر: اسرائیل کا دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر فضائی حملہNode ID: 894401
اسرائیل نے حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کا دفاع کیا جبکہ قطر نے کہا کہ اسرائیل نے پیٹھ میں چھرا گھونپا اور ’ریاستی دہشت گردی‘ کر رہا ہے۔ قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ فضائی حملوں سے امن مذاکرات کو پٹری سے اتارے جانے کا خطرہ ہے۔
قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ حماس کو نشانہ بنانے کو ایک اہم مقصد سمجھتے ہیں، لیکن انہیں برا لگا کہ یہ حملہ خلیجی عرب ریاست میں ہوا جو واشنگٹن کا ایک بڑا نان نیٹو اتحادی ہے اور جہاں فلسطینی اسلام پسند گروپ کا طویل عرصے سے سیاسی دفتر قائم ہے۔
اس حملے کی سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین کی جانب سے مذمت کی گئی۔ اور غزہ کی جنگ بندی کے مذاکرات کو پٹری سے اتارنے کا خطرہ ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ دو برس سے جاری غزہ کی جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
قطر امریکہ کا سیکیورٹی پارٹنر ہے اور وہاں موجود العدید ایئر بیس مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے۔ قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت میں مصر کے ساتھ ثالث کے طور پر کام کیا ہے۔
اس حملے کے بعد غزہ میں جنگ بندی کی جانب پیش رفت اور اس کا حصول اب مزید بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہو گیا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ حملے میں اس کے پانچ ارکان مارے گئے جن میں حماس کے جلاوطن غزہ سربراہ کا بیٹا اور اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیا بھی شامل ہیں۔ حماس نے اسرائیلی حملے کو گروپ کی جنگ بندی مذاکراتی ٹیم کو قتل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور کہا کہ اسرائیل اس میں ناکام رہا ہے۔
صدر ٹرمپ سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کی انتظامیہ کو امریکی فوج کی جانب سے حملے کی وارننگ اس سے قبل موصول ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ اسرائیل تھا جس نے امریکی فوج کو مطلع کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے لکھا کہ ’قطر کے اندر یکطرفہ بمباری، جو کہ ایک خودمختار ملک اور امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، اور بہت محنت اور بہادری سے ہمارے ساتھ امن کے لیے خطرہ مول لے رہا ہے، اسرائیل یا امریکہ کے مقاصد کو آگے نہیں بڑھاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تاہم، حماس کو ختم کرنا، جس نے غزہ میں رہنے والوں کے مصائب سے فائدہ اٹھایا ہے، ایک بڑا مقصد ہے۔‘
قبل ازیں قطر نے دوحہ میں حماس کے ہیڈکوارٹرز پر ’اسرائیل کے بُزدلانہ حملے‘ کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
قطری وزراتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ’ایکس‘ پر ایک بیان میں کہا کہ ’قطر کی ریاست اسرائیل کی جانب سے دارالحکومت دوحہ کی رہائشی عمارتوں میں واقع حماس کے سیاسی بیورو کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتی ہے۔‘