اگر آپ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور حال ہی میں آپ نے کسی پاکستانی یونیورسٹی سے متعلق کچھ سرچ کیا ہے تو ان دنوں آپ کی سوشل میڈیا ٹائم لائن پر درجنوں نجی یونیورسٹیز میں داخلوں سے متعلق اشتہارات کی بھرمار ہو گی۔
تو کیا یہ غیرمعمولی ہے؟ جی ہاں یہ اس لیے غیرمعمولی ہے کیونکہ خزاں کے داخلے بند ہو چکے ہیں اور ستمبر کے پہلے ہفتے سے کلاسز کا آغاز ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ یونیورسٹیوں میں کم داخلوں کے رجحان نے تقریباً تمام نجی یونیورسٹیوں کو دوبارہ داخلے کھولنے پر مجبور کر دیا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی یعنی پنجاب یونیورسٹی میں بھی اس برس چار ہزار طلبہ کم داخل ہوئے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس سال کل 10 ہزار طلبہ داخل ہوئے جبکہ یونیورسٹی میں 14 ہزار طلبہ کی سیٹیں ہیں۔ یونیورسٹیوں میں داخلے کے موجودہ رجحان سے اس بات کو تقویت ملتی ہے یونیورسٹیوں میں داخلے تسلسل سے کم ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم کا قتل، ’دوست ہی ملوث پائے گئے‘Node ID: 882746
یونیورسٹیوں میں داخلوں میں کمی کے اثرات پنجاب اسمبلی تک بھی پہنچے ہیں اور ہایئر ایجوکیشن کمیشن سے اس بابت رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔
ہدف سے کم داخلوں کی کئی وجوہات ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ حکومت کی اپنی رپورٹ کےمطابق اڑھائی کروڑ بچہ سکول نہیں گیا جس کا اثر لامحالہ کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی آنا ہے۔ اسی طرح اب تقریباً ہر ضلعے میں یونیورسٹی کیمپس موجود ہیں جس کی وجہ سے خواتین اپنے ہی علاقوں میں داخلوں کو ترجیح دے رہی ہیں۔‘
پنجاب یونیورسٹی کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ برس بھی داخلوں کی کمی کا سامنا ہونے کی وجہ سے دوبارہ داخلے کھولے گئے تھے اور اب شنید ہے کہ چار ہزار داخلوں کے لیے ایک مرتبہ پھر سرکاری یونیورسٹی میں آئندہ چند روز میں داخلے دوبارہ کھولے جائیں گے۔

جہاں تک نجی یونیورسٹیوں کا تعلق ہے تو یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سٹوڈںٹس کی کمی کی وجہ سے داخلے دوبارہ کھولے گئے ہیں۔ یونیورسٹی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’ایک بڑی وجہ تعلیم کا مہنگا ہونا بھی ہے۔ طلبہ اب لمبی ڈگریوں کے بجائے مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں۔ تاہم یہ ایک کثیر جہتی معاملہ ہے۔ داخلوں میں کمی کی وجہ کسی ایک چیز کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 88 یونیورسٹیز ہیں جن میں سے سرکاری 51 اور نجی یونیوسٹیوں کی تعداد 37 ہے۔ جبکہ سالانہ طالب علموں کی تعداد ساڑھے سات لاکھ کے قریب ہے۔ جبکہ حالیہ برسوں میں ان میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ صرف 2025 میں 20 سے 25 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھانے والے استاد محمد زبیر کہتے ہیں کہ ’پڑھائی بہت مہنگی ہو گئی ہے اور میں ذاتی طور پر اس کی وجہ پاکستان کے معاشی بحران کو سمجھتا ہوں۔ جیسے ہر چیز متاثر ہوئی ہے اسی طرح تعلیم بھی مہنگی ہوئی ہے۔ نجی شعبہ تو اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکتا لیکن سرکار کم از کم پبلک یونیورسٹیز کی فیسز کو کم کر سکتی ہے جس سے اس رجحان کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔‘

ترجمان پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر خرم کا کہنا ہے کہ ’ہمارے کچھ شعبوں جیسا کہ کشمیریات یا فارسی میں داخلوں میں کمی ہوئی ہے کیونکہ یہ شعبے نجی جامعات میں پڑھائے نہیں جاتے، صرف ہم ہی پڑھاتے ہیں۔ اور اب لوگوں کا رجحان ان شعبوں میں داخلوں سے متعلق تبدیل ہوا ہے۔ اس وجہ سے جب مجموعی داخلوں کی بات آتی ہے تو ان شعبوں میں مختلف سیٹوں کو بھی گنا جاتا ہے۔ باقی ہماری مارننگ کلاسز کے داخلے مکمل ہو چکے ہیں، ان میں پڑھائی بھی شروع ہو چکی ہے۔ البتہ سیلف فنانس اور شام کی کلاسز کی صورت حال ذرا مختلف ہے۔‘