Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغانی قرار دے کر ہراساں کیا جا رہا ہے‘، مشہور سوشل میڈیا پیج ’اسلام آبادیز‘ کے ایڈمن پریشان

حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کے فیصلے پر سختی سے عمل پیرا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں رہنے والا شاید ہی کوئی شہری ایسا ہو جو فیس بک اور ایکس پر موجود ’اسلام آبادیز‘ نامی پیج سے واقف نہ ہو۔
یہ پیج سال 2014 میں ایکس سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تخلیق کیا گیا، جہاں اسلام آباد شہر سے متعلق اپ ڈیٹس شیئر ہونا شروع ہوئے۔
آج اس پیج کے سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوئرز ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا تقریباً ہر شخص اسے فالو کرتا ہے۔
اس پیج پر عام طور پر اسلام آباد کی خوبصورتی، مسائل اور کمیونٹی سروسز سے متعلق اپ ڈیٹس دی جاتی ہیں لیکن چند دن قبل اسی پیج کے ایڈمن نے ایکس پر ایک غیر معمولی پوسٹ کی جس میں بڑے جذباتی انداز میں انہوں نے اپنے اور شاید اس پیج کے مستقبل کے بارے میں پریشانی اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
پیج کے ایڈمن نے لکھا کہ ’وہ دراصل پاکستانی ہیں مگر انہیں افغانی قرار دے کر شدید ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے خاندان کے کچھ افراد کو افغانستان بھی بھیج دیا گیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ ان کا مستقبل بھی یہی ہو سکتا ہے۔‘
اس پوسٹ سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ممکن ہے ’اسلام آبادیز‘ کے نام سے چلنے والا یہ پیج مستقبل قریب میں غیرفعال ہو جائے۔
پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے حوالے سے حکومتِ پاکستان کی جانب سے کیے جا رہے اقدامات میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے اور اب تک ہزاروں افغان شہریوں کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے اور باقیوں کی واپسی کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم ان کوششوں کے دوران کچھ ایسے شہری بھی سامنے آ رہے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تو پیدا ہی پاکستان میں ہوئے ہیں تو وہ پاکستانی شہری ہیں چنانچہ انہیں کیوں واپس بھیجا جا رہا ہے؟
اسی صورتِ حال کا شکار ’اسلام آبادیز‘ پیج کے ایڈمن ماجد خان (فرضی نام) بھی ہیں جنہوں نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ اردو نیوز نے اس حوالے سے ان سے بات کی ہے۔
اُنہوں نے بتایا ہے کہ ’ان کے دادا نے 70 کی دہائی میں افغانستان سے پاکستان ہجرت کی تھی اور تب سے ہی ان کا خاندان پاکستان میں مقیم ہے۔ انہوں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی کوئی غیرقانونی کام کیا۔‘
ماجد خان کے مطابق ان کے گاؤں والے بھی اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ ان کے دادا اور والدین نے یہیں زندگی گزاری اور وفات پائی۔ وہ خود اور ان کے بہن بھائی اسی سرزمین پر پیدا ہوئے، پروان چڑھے اور ہمیشہ قانون کا احترام کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آج ان کی عمر 37 سال ہے، وہ شادی شدہ ہیں اور بچوں کے والد ہیں اور اب مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں افغان ہوں۔‘

اسلام آبادیز نامی اکاؤنٹ کی پوسٹوں میں دارالحکومت کی خوب صورتی کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے (فوٹو: سکرین گریب)

اُنہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ان کے بھائی اور بھابھی کو حکام نے زبردستی افغانستان بھیج دیا ہے۔ میرے پاس تو کوئی اور راستہ ہے نہ وسائل اور نہ ہی کوئی سہارا۔ ہم یہیں پیدا ہوئے، دن رات محنت کی اور اسی ملک میں زندگی گزاری۔‘
ماجد خان اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انہیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کریں اور کہاں جائیں۔ بعض اوقات خودکشی جیسے خیالات بھی ذہن میں آتے ہیں، مگر وہ اپنی فیملی کے لیے فکرمند ہیں اور اس قدم سے گریز کرتے ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے والد کے پاس قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دونوں موجود تھے، میری پیدائش بھی پاکستان میں ہوئی اور ملکی قانون کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص پاکستانی شہری کہلاتا ہے۔ اس کے باوجود آج تک میرا شناختی کارڈ نہیں بنایا گیا۔‘
’میں صوابی میں پیدا ہوا لیکن سنہ 2003 میں ہم اسلام آباد منتقل ہو گئے اور تب سے میں یہیں رہائش پذیر ہیں۔ میں سوشل میڈیا پر بھی بہت ایکٹو ہوں اور اسلام آباد کے معاملات پر گہری نظر رکھتا ہوں۔ متعدد مقامی مسائل کو اجاگر بھی کر چکا ہوں مگر اس سب کے باوجود شناختی کارڈ سے محروم ہوں۔‘
اردو نیوز نے اس معاملے پر وزارت داخلہ اسلام آباد پولیس اور دیگر متعلقہ حکام سے موقف جاننے کی کوشش کی۔

حکام نے کسی انفرادی کیس پر بات کرنے یا مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا ہے (فوٹو: ویڈیو گریب)

حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مقیم ایسے افغان پناہ گزین جن کے دستاویزی ثبوتوں کی معیاد ختم ہو چکی، انہیں واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ البتہ جن کے پاس درست کاغذات موجود ہیں، ان کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی جا رہی۔
حکام نے کسی انفرادی کیس پر بات کرنے یا مزید تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا ہے۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے امیگریشن امور کے ماہر اور تارکین وطن کے معاملات پر کام کرنے والے ماہر طارق احمد سے بھی بات کی۔

اسلام آبادیز اکاؤنٹ کے ایڈمن کے مطابق ان کی عمر 37 سال ہے، وہ شادی شدہ ہیں اور بچوں کے والد ہیں (فوٹو: سکرین گریب)

ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے اور اس پر سختی سے عمل ہو رہا ہے مگر جب اتنے بڑے پیمانے پر واپسی کا عمل ہو رہا ہو تو اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جو واقعی پاکستان میں پیدا ہوئے ہوں اور پاکستانی کہلانے کے حق دار ہوں۔‘
طارق احمد نے بتایا کہ ’غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو گزشتہ دو سے تین سال میں کئی بار رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے لیے کہا گیا لیکن بیشتر نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے۔‘
تاہم ان کے خیال میں ’حکومت کو کم از کم ان افغان پناہ گزینوں کے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہیے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں اور یہاں ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘

شیئر: