Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اربوں سال قبل کے مناظر‘، کیا ناسا کو مریخ پر ممکنہ زندگی کے آثار مل گئے ہیں؟

ناسا کے مطابق مریخ پر موجود پرسیورینس روور نے جیزرو کریٹر میں ایک قدیم خشک دریا کے کنارے سے حاصل کیے گئے نمونے میں ممکنہ حیاتیاتی آثار (biosignatures) دریافت کیے ہیں۔
یہ نمونہ، جسے ’سیفائر کینین‘ کہا گیا ہے، گزشتہ سال ’چیاوا فالز‘ نامی ایک چٹان سے لیا گیا تھا اور بدھ کے روز جریدہ ’نیچر‘ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق اس میں ممکنہ زندگی کے شواہد موجود ہیں۔
ممکنہ بایوسگنیچر وہ مادہ یا ڈھانچہ ہوتا ہے جو ممکنہ حیاتیاتی ماخذ رکھتا ہو مگر اس کے بارے میں حتمی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے مزید تحقیق درکار ہو۔
ناسا کے قائم مقام منتظم شان ڈفی نے کہا ہے ’صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں لانچ کیے گئے پرسیورینس مشن کی یہ دریافت مریخ پر زندگی کے امکان سے متعلق ہماری اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت ہے۔ سرخ سیارے پر ممکنہ بایوسگنیچر کی شناخت ایک انقلابی دریافت ہے جو مریخ کو سمجھنے میں ہماری تحقیق کو آگے بڑھائے گی۔‘
جولائی 2024 میں پرسیورینس نے ’برائٹ اینجل‘ فارمیشن کے دوران ’چیاوا فالز‘ کو دریافت کیا تھا۔ یہ مقام قدیم دریا کے دہانے نیرتوا ویلس کے کناروں پر واقع ہے، جو کبھی پانی کے بہاؤ سے جیزرو کریٹر میں نمودار ہوا تھا۔
ناسا کی سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کی ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر نکی فاکس نے کہا ہے ’یہ دریافت اس بات کا نتیجہ ہے کہ ناسا نے حکمتِ عملی کے ساتھ ایک ایسا مشن سرانجام دیا جو مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار کی شناخت جیسے سائنسی نتائج فراہم کرے۔ اب اس تحقیق کو شائع کرنے کے بعد یہ ڈیٹا عالمی سائنسی برادری کے لیے مزید تجزیے اور جانچ کے لیے دستیاب ہے۔‘
روور کے آلات نے پایا کہ اس علاقے کی چٹانیں مٹی اور سلٹ پر مشتمل ہیں جو زمین پر مائیکروبیل زندگی کے بہترین محافظ ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں نامیاتی کاربن، سلفر، آکسیڈائزڈ آئرن (زنگ) اور فاسفورس کی بھی کثرت موجود ہے۔

ناسا کے پرسیورینس روور نے جولائی 2024 میں مریخ کے جیزرو کریٹر میں ایک سرخی مائل چٹان پر "چیاوا فالز" کے نام سے جانی جانے والی جگہ پر چیتے جیسے دھبے دریافت کیے۔ (فوٹو: ناسا)

اس تحقیق کی قیادت کرنے والے سائنسدان جوئل ہورووٹز کے مطابق ’یہ تمام کیمیائی عناصر مائیکروبیل زندگی کے لیے توانائی کا ذریعہ بن سکتے تھے، لیکن صرف یہی ڈیٹا کافی نہیں تھا۔ ہمیں یہ جاننا تھا کہ اس ڈیٹا کی اصل معنویت کیا ہے۔‘
پی آئی ایکس ایل (PIXL) اور شیئرلاک (SHERLOC) آلات نے اس چٹان پر رنگ برنگے دھبے دریافت کیے۔ یہ دھبے نامیاتی کاربن، سلفر اور فاسفورس پر مبنی ایسے نشانات ہیں جو ممکنہ طور پر مائیکروبیل سرگرمی کے آثار ہو سکتے ہیں۔
اعلیٰ ریزولوشن تصاویر میں ان دھبوں کو ’چیتے کے دھبوں‘ جیسے نمونے میں منظم پایا گیا، جن میں ویویانائٹ  اور گریگائٹ  جیسے دو معدنیات کی نشانیاں تھیں۔ زمین پر ویویانائٹ عام طور پر گلنے سڑنے والے نامیاتی مادے کے ساتھ ملتی ہے جبکہ گریگائٹ بعض مائیکروبیل عمل سے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ معدنی امتزاج مائیکروبیل توانائی کے استعمال کا ممکنہ ثبوت ہے، اگرچہ ان معدنیات کی تشکیل بغیر کسی حیاتی عمل کے بھی ممکن ہے۔ تاہم، برائٹ اینجل کی چٹانوں میں بلند درجہ حرارت یا تیزابیت کے کوئی آثار نہیں ملے۔

ناسا کے پرسیورینس مریخ روور نے 23 جولائی 2024 کو اپنی یہ سیلفی بنائی۔ (فوٹو: ناسا)

اہم بات یہ ہے کہ یہ دریافت مشن کی اب تک کی نسبتاً تازہ ترین چٹانوں میں سامنے آئی ہے، جبکہ اس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زندگی کے آثار صرف قدیم ترین چٹانوں میں محفوظ ہو سکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریخ ماضی میں سوچے گئے عرصے سے زیادہ دیر تک قابلِ رہائش رہا ہوگا۔
پرسیورینس کی پروجیکٹ سائنسدان کیٹی اسٹیک مورگن نے کہا ’ایسی بڑی سٹرابایولوجیکل دعوے غیر معمولی شواہد کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اس نتیجے کا peer-reviewed تحقیق میں شائع ہونا ایک اہم قدم ہے، لیکن ابھی بھی غیر حیاتیاتی امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔‘
یہ نمونہ (سیفائر کینین) ان 27 کورز میں سے ایک ہے جو روور نے فروری 2021 میں جیزرو کریٹر پر اترنے کے بعد سے جمع کیے ہیں۔ پرسیورینس میں دیگر آلات کے ساتھ ایک موسمیاتی سٹیشن بھی شامل ہے جو مستقبل کی انسانی مہمات کے لیے ڈیٹا فراہم کر رہا ہے۔
ناسا کے مارس ایکسپلوریشن پروگرام کے تحت یہ مشن کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کالٹیک) اور جے پی ایل کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔

شیئر: