Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انڈیا کا پاکستان کے خلاف میچ کھیلنا ضروری تھا کیونکہ پروڈیوسر بڑے صاحب کا بیٹا تھا‘

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق انڈین پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان نے پیر کو بی جے پی کی حکومت پر شدید تنقید کی کہ اس نے سکھ یاتریوں کو پاکستان جانے اور گورو نانک کے پرکاش پرب (جنم دن) پر حاضری دینے کی اجازت نہیں دی، جبکہ انڈین کرکٹ ٹیم دبئی میں پاکستان کے خلاف میچ کھیل رہی ہے۔
اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ مرکزی حکومت کو ’پنجاب مخالف عارضہ‘ لاحق ہے اور وہ ریاست کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بھگوت مان نے کہا ’میں وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پنجابیوں کے جذبات سے کھیلنے سے باز رہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بی جے پی کی پالیسی پاکستان کے خلاف ہے یا اپنے ہی لوگوں کے خلاف۔‘
وزیراعلیٰ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ گجرات اور ممبئی کی بندرگاہیں کراچی کے ساتھ کھلی ہیں، مگر پنجاب کی اٹاری زمینی سرحد کے ذریعے تجارت بند ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ سب اس لیے ہے کہ پنجاب نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا یا اس لیے کہ مودی حکومت کو 2020-21 کی کسان تحریک کے بعد معافی مانگنی پڑی۔
پاکستان اور انڈیا کے ایشیا کپ میچ کے بعد ہونے والے تنازع پر ان کا کہنا تھا ’کیا آپ ہاتھ نہ ملانے سے آپریشن سندور جیت گئے ہیں؟ آپ نے میچ تو کھیل ہی لیا، اگر یہ بات تھی تو آپ ان کے کیچ بھی نہ پکڑتے۔‘
اسی دوران انہوں نے ’آپریشن سندور‘ سے میچ کو جوڑنے کے بیانیے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایک طرف دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کھیل سیاست سے الگ ہونے چاہییں، تو دوسری طرف اسی میچ کو آپریشن کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ میچ کھیلنے کی فیس پاکستان کو بھی جائے اس سے کس کا فائدہ ہو گا؟

ایشیا کپ کے میچ میں انڈین ٹیم نے پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ نہیں کیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر تنازع جنم لیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا ’کرکٹ میچ رک سکتے ہیں، فلمیں بھی رک سکتی ہیں، لیکن مذہبی تہوار وقت کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہماری اپنی مرکزی حکومت ہم پر ایسی پابندیاں لگا رہی ہے۔‘
مان نے کرتارپور کوریڈور کھولنے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں وہ مرکز کو خط بھی لکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کرکٹ میچ کھیلے جا سکتے ہیں تو عقیدت مندوں کو کرتارپور صاحب یا ننکانہ صاحب جانے سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں۔
’کیا سب کچھ ان (مرکزی حکومت) کی مرضی سے ہی چلے گا؟ انہوں نے پنجابی محاورہ ’کدے مر جا چڑھیئے، کدے جِندی ہو جا‘ (کبھی مر جاؤ، کبھی زندہ ہو جاؤ) استعمال کرتے ہوئے دہرا معیار قرار دیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ پنجابیوں کے لیے پاکستان کے گردواروں میں حاضری دینا عقیدے کا معاملہ ہے، نہ کہ سیاست یا کاروبار کا، اور یہ ان کی روز مرہ دعاؤں کا حصہ ہے۔
انہوں نے اس تضاد پر تنقید کی کہ ایک طرف پاکستان سے کشیدہ تعلقات کے باعث ان مقدس مقامات کی یاترا پر پابندی ہے، مگر دوسری طرف انہی حالات میں ان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ان کے مطابق اس کا تعلق دراصل میچ کے ’پروڈیوسرز‘ کے مالی مفادات سے ہے۔
انہوں نے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے اس مؤقف پر بھی سوال اٹھایا کہ انڈیا کو کثیر الملکی ٹورنامنٹس میں حصہ لینا ہی ہوگا۔ مان نے یاد دلایا کہ ’انڈیا نے 1987 کے ایشیا کپ سے بھی انکار کیا تھا۔‘
بھگونت مان نے بغیر نام لیے پنجابی گلوکار و اداکار دلجیت دوسانجھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’جب ایک فنکار نے اپنی فلم میں پاکستانی اداکارہ کو کاسٹ کیا تو اسے غدار کہا گیا اور ان کی ٹرول آرمی نے اس پر حملہ کیا۔ یہ سب اس کے باوجود ہوا کہ وہ فلم اس وقت شوٹ کی گئی تھی جب پہلگام حملے کے بعد انڈیا پاکستان تعلقات خراب نہیں ہوئے تھے۔
’وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ کسی فلم کی منسوخی کا نقصان پروڈیوسر اور فنکار کو ہوتا ہے۔ لیکن کل کھیلا گیا کرکٹ میچ، جس کا 'پروڈیوسر' تو 'بڑے صاحب' کا بیٹا تھا، وہ تو براہِ راست نشر کیا گیا۔ آخر کیا مجبوری تھی کہ یہ میچ لازمی کھیلنا پڑا۔‘
وزیراعلیٰ بھگونت مان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مرکزی حکومت کا 1,600 کروڑ روپے کا ریلیف پیکج، جس کا اعلان وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے پنجاب کے دورے کے دوران کیا تھا، تاحال جاری نہیں کیا گیا۔

شیئر: