کراچی کے ایوان صدر میں دستخطوں کی تقریب میں تمام لوگوں کی نگاہیں ساگوان کی چمکتی ہوئی لکڑی کے میز پر جمی ہوئی تھیں۔ اس پر براجمان صدر پاکستان ایوب خان کے دائیں پہلو میں بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور بائیں طرف ورلڈ بینک کے ولیم الیف بیٹھے ہوئے تھے۔
’اس معاہدے نے شاید ’ایک اور کوریا‘ بننے کے امکانات کو ختم کر دیا۔‘ آج سے ٹھیک 65 برس قبل 19 ستمبر 1960 کو سندھ طاس معاہدے پر دستخط کی تقریب کے بارے میں یہ الفاظ انڈین محقق اور مصنف اتم کمار سہنا نے اپنی کتاب ’انڈس بیسن آن انٹرپٹڈ‘ میں لکھے ہیں۔
ایک دہائی پر محیط طویل مذاکراتی ادوار اور ایک دوسرے سے شاکی ہمسایوں کے درمیان مفاہمانہ معاہدے کو ’ایک اور کوریا‘ بننے سے بچنے کے اشاراتی زبان کے استعمال کا ایک مخصوص پس منظر تھا۔
مزید پڑھیں
1950 کی دہائی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر جاری تناؤ اور کشمکش کے بارے میں معروف امریکی تکنیکی ماہر ڈیوڈ للی نتھیل نے دونوں ملکوں کے دورے کے بعد ’Collier‘ نامی میگزین کے لیے اپنے مضامین میں کشمیر کے مسئلے کو امن کے لیے خطرہ گردانتے ہوئے دوسرا کوریا قرار دیا تھا۔
اپنے دوسرے مضمون میں انہوں نے دونوں ملکوں کے مابین آبی تنازعات کے حل کا نظریہ پیش کیا۔
للی نتھیل امریکی ٹینیسی ویلی ڈیویلپمنٹ پلان کے ذریعے امریکہ کے جنوب مشرقی حصے میں ڈیموں اور آبی ذخائر کے انتظام کے ذریعے سیلابوں پر قابو پانے اور زراعت کی بہتری کے منصوبے کے سربراہ رہ چکے تھے۔
ہم انہیں انڈس واٹر ٹریٹی کے اتفاق رائے تک پہنچنے والے ابتدائی معاہدوں کا معمار کہہ سکتے ہیں۔ انڈس بیسن کے پانیوں کو غیر سیاسی اور تکنیکی بنیادوں پر ترقی دینے اور ان کے استعمال کے بارے میں ان کے فارمولے سے اس وقت پاکستان، انڈیا اور ورلڈ بینک نے اتفاق کیا تھا۔ اس نے ورلڈ بینک کی ثالثی اور سہولت کاری میں دونوں ملکوں کے درمیان آبی تنازع کو حل کرنے کی طویل سفارتی کوششوں کا آغاز ہوا تھا۔
امریکہ کی ٹینیسی ویلی اتھارٹی یا ٹی وی اے کو آج دنیا آبی وسائل کے انتظام کے ذریعے معاشی اور سماجی ترقی کے کامیاب ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔
مگر سندھ طاس معائدے کی تاریخ اور قسمت اس سے مختلف ہے۔
یہ ڈرامائی ٹکراؤ، غلط فہمیوں اور تنازعات سے بھرا ہوا معائدہ ہے جس میں انسان دریائی پانیوں کے اتار چڑھاؤ کے ذریعے اپنی تقدیر تراشتے ہیں۔
پانی پر جنگ کی دھمکی
اپریل 2025 میں انڈیا نے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے واقعے کے اگلے روز سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان آبی ذخائر اور پانی کی ملکیت کے حوالے سے ایک زبانی جنگ کا آغاز ہو گیا جو جلد ہی محدود نوعیت کی حقیقی جنگ میں بدل گیا۔

رواں سال مئی کے مہینے میں دونوں ملکوں کے درمیان محدود سرحدی جھڑپوں کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے یہ اعلان کیا کہ دریاؤں میں پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا۔
ان کے اس بیان پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور اپنے پانیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جانے کا عندیہ ظاہر کیا۔
پاکستان کے سکیورٹی اور سفارتی منظر نامے پر انڈیا کی ’آبی جارحیت‘ اور ’پانی کو ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کرنے جیسی اصطلاحات کے استعمال سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی اور تناؤ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
مگر گزشتہ ماہ کے وسط میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی مقدار اور ملکیت پر ایک دوسرے سے نبرد آزما دونوں ہمسایوں کے سرحدی علاقوں میں شدید بارشوں نے بدترین سیلابوں کو جنم دیا۔
سرحد کی دونوں جانب بپھرے پانیوں نے سندھ طاس معاہدے کے بارے میں روایتی موقف اور تکنیکی دعووں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نئے سوالات کو جنم دیا۔ یہ سوالات کروڑوں انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے موسمی اثرات اور تبدیلیوں کے بارے میں ہیں۔
اس معاہدے کی رو سے مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا جبکہ راوی، ستلج اور بیاس کے مشرقی دریاؤں کا انتظام اور استعمال انڈیا کے حوالے کیا گیا۔
جغرافیائی طور پر پاکستان دریاؤں کے بہاؤ کے زیریں حصے میں اور انڈیا اس کے اوپری حصے میں واقع ہے۔ انڈس بیسن کے سارے دریا انڈیا کے علاقوں سے بہہ کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
ستلج ،جہلم ،چناب اور راوی پاکستان اور انڈین پنجاب کے بڑے حصے کو آبپاشی کا پانی مہیا کرتے ہیں۔ ان کا منبع ہمالیائی پہاڑی سلسلوں کے دامن میں ہے۔
حالیہ غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے ان دریاؤں سے منسلک نالوں اور معاون دریاؤں میں پانی کی مقدار حد سے بڑھ گئی۔ جس کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پنجاب کی لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی زیر آب آگئی۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سمیت پنجاب کے دونوں حصوں میں درجنوں شہر پانی میں ڈوب گئے۔
پاکستان اور انڈیا اس معاہدے کے 12 سبجیکٹس اور آٹھ ضمیموں میں درج عبارتوں اور اصطلاحات کی تشریح اپنے اپنے ملکی مفاد میں کرتے ہیں۔ اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔
البتہ اس کی شرائط اور ترامیم کے لیے آرٹیکل 10 موجود ہے جو دونوں ملکوں کی رضامندی سے معاہدے کی نئی شکل کے خد و خال واضح کرتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے اس خطے میں انسانی سرگرمیوں اور قدرتی عوامل سے جنم لیتی ماحولیاتی تبدیلیوں سے آبی ذخائر کی ہیٔت، نوعیت اور آفادیت میں تبدیلیاں آ چکی ہیں جن سے لاحق خطرات سے بچاؤ کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟

ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاہدوں پر اثرات
جب سندھ طاس معاہدے پر اتفاق ہوا تو اس وقت انڈس بیسن کے علاقے میں سرحد کے دونوں طرف پانچ کروڑ لوگ آباد تھے لیکن اب اسی علاقے میں 30 کروڑ کے قریب افراد بستے ہیں۔
اس نظام میں 299 کیوبک میٹر پانی کا اخراج ہوتا ہے جس میں سے 93 فیصد پانی آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اتنی بڑی ابادی کے لیے خوراک، پینے کا پانی اور توانائی کا حصول اور سب سے بڑھ کر آبادی میں بے تحاشہ اضافے سے انڈس بیسن کا علاقہ ماحولیاتی اور معاشی مسائل کے گرداب میں ہے۔
جنوبی ایشیا میں پانی کے ذخائر پر جنم لینے والی کشمکش کے جائزے پر مبنی کتاب ’واٹر وارز ان ساؤتھ ایشیا‘ کے مصنف اقتدار حسین صدیقی کے مطابق انڈیا کے لیے اس معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اسے 1947 میں ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے ملنے والے آبی ذخائر کے ہیڈ ورکس کے علاوہ مشرقی دریاؤں کا اضافی پانی بھی مل گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بھاکرا اور نانگل ڈیمز مکمل کر سکا اور راجستھان نہر اور راوی بیاس نہر جلسے منصوبے شروع ہو سکے ۔
مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ تمام دریاؤں کے ہیڈ واٹر اس کی ملکیت میں واقع ہیں مگر انڈس سسٹم کا صرف21 فیصد پانی اسے ملتا ہے۔
مصنف کے خیال میں دوسری جانب پاکستان میں شروع سے ہی اس معاہدے کے حوالے سے منقسم رائے موجود رہی ہے۔ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان نے اس معاہدے سے دو دریاؤں کا پانی کھو دیا۔
جبکہ دوسرے کے خیال میں دو دریاؤں کے پانی سے محرومی کے باوجود پاکستان نے متبادل نہری نظام اور پانی ذخیرہ کرنے میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل کیں۔ دو بڑے ڈیمز، چھ بیراجز، آٹھ رابطہ نہریں اور 2500 ٹیوب ویلز کی تنصیب اس معاہدے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
1960 میں جب اس معاہدے کی شرائط و تفصیلات طے کی گئیں تو ماحولیاتی تبدیلیوں کا موجودہ تصور اس وقت موجود نہ تھا۔ اس لیے معاہدے میں اس کے بارے میں کوئی شرائط اور طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
ڈینیل ہئنز برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی تاریخ دان ہیں۔ ان کی تحقیق کے موضوعات میں پاکستان اور انڈیا کے آبی ذخائر کی تقسیم بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب ’دی انڈس ڈیوائڈ: انڈیا پاکستان اینڈ دی ریور بیسن ڈسپیوٹ‘ انڈس واٹر ٹریٹی کی تاریخ اور مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔
ان کے مطابق امریکی ماہر للی نتھیل کی تجاویز کو ورلڈ بینک نے دونوں ملکوں کے درمیان پانی پر مذاکرات کے آغاز کی شرائط کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ تجاویز اس مفروضے پر مبنی تھی کہ انڈس کے آبی وسائل دونوں ملکوں کی ضروریات کے لیے کافی ہیں۔ اس کے علاوہ دریاؤں کو مشترکہ طور پر اس طرح منظم کیا جائے گا کہ پورے انڈس سسٹم کی ترقی ہوگی۔
لیکن معاہدے کی چھ سے زیادہ دہائیاں گزرنے کے بعد یہ خطہ پانی کی بدترین قلت کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، برفانی تودوں کی ٹوٹ پھوٹ، بارشوں کے اوقات اور کمیت میں تبدیلی، کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں ناگہانی آفات سندھ طاس میں پانی کے بہاؤ پر اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
کیا مسائل کا حل نئے معاہدے میں ہے؟
اس تناظر میں کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ معاہدے کو ختم کرنے یا دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقف کے لیے وہ 1969 ویانا کنونشن برائے قانونی معاملات کے آرٹیکل 62 کے پیراگراف ایک کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس کے مطابق ایک معاہدہ اس وقت تک نافضل العمل رہتا ہے جب تک وہ حالات جو اس کے طے پاتے وقت موجود تھے اور جن کی بنیاد پر معائدہ ہوا تھا، بغیر کسی بڑی تبدیلی کے قائم رہیں۔
ان کے خیال میں یہ معاہدہ اس مفروضے پر قائم تھا کہ ایک مخصوص مقدار میں پانی دریائے سندھ کے نظام سے بہتا رہے گا۔ لیکن ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اس میں تغیر آچکا ہے جو کہ معاہدے پر نظر ثانی کا جواز بن سکتا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات اور عالمی قوانین کے پاکستانی ماہر اعجاز حسین نے معاہدے میں تبدیلی یا اسے ختم کرنے کے دلائل پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کی کتاب ’پولیٹیکل اینڈ لیگل ڈائمنشن انڈس واٹر ٹریٹی‘ موسمیاتی تبدیلیوں کی مروجہ تعریف اور بین الاقوامی اداروں کی تحقیق اور سائنسی امور پر اختلافات کا جائزہ لیتی ہے۔
وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل کے حل کے طور پر اس معاہدے کو ختم کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں ملکوں میں پائی جانے والے سیاسی اختلافات اور سرحدی تنازعات اس نوعیت کے ہیں کہ ان کی موجودگی میں اگلی بار کسی اور معاہدے کا ہونا مشکل ہوگا۔
تاہم موسمیاتی مسائل کا حل انڈس ٹو کی صورت میں تجویز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں موجودہ معاہدے میں پائے جانے والے نقائص اور خلاء کو پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اسی طرح پانی کے بہاؤ کے مسائل اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلمجڑ کا خاتمہ ہو سکے گا۔
پالیسی سازی کے انڈین ماہر اور مصنف اتم کمار سہنا کے مطابق موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اس معاہدے کو کسی دوسرے معاہدے سے بدلنے یا منسوخ کرنے کا سوال ہی غیر منطقی ہے۔ مسائل کا حل خود سندھ طاس معاہدے میں موجود ہے۔
ان کے مطابق معاہدے کی شک نمبر سات مستقبل میں تعاون کے وسیع امکانات کو سامنے لاتی ہے۔ جو کہ ’دریاؤں کی بہتر ترقی میں باہمی دلچسپی‘ اور ’دریاؤں پر انجینیئرنگ کے کام کو سرانجام دینے‘ کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کام کے لیے سندھ طاس کا درست اور نیا سروے درکار ہوگا ۔
کیا پاکستان اور انڈیا میں ایک نیا آبی تعلق قائم کرنے کی ضرورت ہے؟
یہ سوال ہم نے پانی کے ذخائر پر ماحولیاتی اثرات کے ماہر ڈاکٹر پرویز عامر کے سامنے رکھا۔ ان کا جواب تھا کہ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ تین سے پانچ سال تک سندھ طاس معاہدے کو ایک طرف رکھ کر اپنے آبی تنازعات کا جائزہ لیں۔ متنازعہ امور پر ازسر نو غور کریں اور آج کے دور کی ضرورت کے مطابق پانی کے مسائل اور وسائل کا جائزہ لیں۔
ڈاکٹر پرویز کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ زمین کی سطح پر موجود پانی کے متعلقہ امور کے بارے میں ہے۔ جب کہ زیر زمین پانی کی کیفیت اور مسائل کے بارے میں اس میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں کے زیر زمین پانی کے مسائل ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافے کا شاخسانہ ہیں۔ جس کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق انڈس بیسن کے دریاؤں سے ہے۔
ان کے خیال میں پاکستان اور انڈین کو اپنے سیاسی مسائل سے ہٹ کر تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر پانی کے معاملات کا جائزہ لے کر اس کے حل کی تخلیقی بنیادیں فراہم کرنی ہوں گی ۔
علاقائی اور عالمی طاقتوں کا کردار
انڈس واٹر ٹریٹی نے دو ملکوں میں مشکل اور پیچیدہ آبی مسائل کا حل پیش کیا۔ انڈیا کی جانب سے اس کو معطل کیے جانے سے قبل یہ دنیا میں پانیوں کی تقسیم اور اختلافات کے باوجود معاہدے کے قائم رہنے کی ایک کامیاب مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

65 برس قبل اس کا بنیادی تصور اس اصول پر استوار تھا کہ سندھ طاس کے پانیوں کے بہتر استعمال کو نہ تو مذہبی اور نہ ہی سیاسی مسئلہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قابل عمل انجینیئرنگ اور کاروباری مسئلہ ہے۔
بدقسمتی سے 1965 کی جنگ کے بعد اس مسئلے کو سیاسی مسائل سے ہٹ کر خالصتاً تکنیکی معاملے کے طور پر دیکھنے کی سوچ میں کمی آئی۔ دونوں ملکوں کے سیاسی معاملات، اندرونی قوم پرستی کے تصورات اور علاقائی بالادستی سے جڑے شکوک و شبہات اس سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔
انڈہا میں اس معاہدے کے دو ماہ بعد لوک سبھا میں اس پر تندو تیز سوالات اور تلخ بحث و مباحثہ ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو ایوان میں نوکیلے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان پر تنقید کرنے والوں میں دھیمے لہجے اور منطقی انداز میں گفتگو کرنے والے ایک نوجوان پارلیمنٹیرین پیش پیش تھے جو بعد میں انڈیا کے وزیراعظم بنے۔ یہ اٹل بہاری واجپائی تھے جن کی جماعت بی جے پی نے 2015 کے بعد انڈس واٹر ٹریٹی کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دے کر اپنے سیاسی اور انتخابی مفاد کے لیے استعمال کیا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ پاکستان میں بھی اس معاہدے پر تنقید اور اس کے مضمرات کا ذکر پہلی بار 1965 کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر ہوا۔ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے اپنی حریف محترمہ فاطمہ جناح کو انڈینایجنٹ قرار دیا۔ جواب میں فاطمہ جناح کے حامیوں نے انہیں پاکستان کے دریا انڈیا کے ہاتھ پیسے لے کر بیچنے والا قرار دیا۔
پالیسی سازی کے برطانوی ماہر ڈینیل ہینز معاہدے کی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک اہم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کا تعلق معاہدے کے وقت چین اور افغانستان کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے ہے اور جو پاکستان اور انڈیا کے پڑوسی ممالک ہیں۔
دریائے سندھ اور ستلج کے پانیوں کا ماخذ اور منبع تِبت کا سطح مرتفع ہے جو چین کا حصہ ہے۔ یہ علاقہ جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے سب سے زیادہ برفانی تودوں اور منجمد زمین کے ٹکڑوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یہ علاقہ سندھ طاس کے کُل کیچمنٹ ایریا کا 14 فیصد مہیا کرتا ہے اور انڈیا کو سالانہ 182 کیوبک میٹر پانی یہیں سے میسر ہوتا ہے۔
دو ماہ قبل چین نے ارونا چل میں انڈین سرحد کے ساتھ دریائے برہم پترا پر دنیا کا سب سے بڑا پن بجلی کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دریا چین سے انڈیا میں بہتے ہوئے بنگلہ دیش کا رخ کرتا ہے۔ پانی کے زیریں بہاؤ پر ہونے کی وجہ سے انڈیا نے آپنی آبادی کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
یہ اسی طرح کے خدشات ہیں جو پاکستان کی جانب سے دریائے چناب پر انڈین پن بجلی کے منصوبوں کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں کمی کے بارے میں ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔
پانی کے تنازعات کے حل کے بارے میں عالمی طاقتوں کے کردار کے بارے میں ڈاکٹر پرویز عامر کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیائی خطے سے منسلک چینی علاقوں کے گلیشیئرز بھی خطرے کی زد میں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ پاکستان انڈیا اور چین کو یکساں طور پر درپیش ہے۔ اس سے نمٹنے کی تدابیر ان ملکوں کو قریب لا سکتی ہیں اور خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ اقدامات کا پلیٹ فارم بھی مہیا کر سکتی ہیں۔
یہ تینوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ اور جدید ٹیکنالوجی سے آبی وسائل کے سروے جیسے اقدامات کر کے کلائمیٹ چینج کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔
اس معاہدے کی تشکیل کے دوران پاکستان انڈیا اور عالمی بینک کے درمیان مذاکرات کے طویل دور ہوتے رہے۔ اس دور کے ورلڈ بینک کے صدر یوجین بلیک نے دونوں ہمسایوں کو معاہدہ نہ ہونے کے نتائج سے خبردار کرنے کے لیے پانی کے تنازع کو بارود کا ڈھیر قرار دیا تھا۔
معاہدے پر دستخطوں نے بہت سارے خطرات کو کم کر دیا مگر انسانی سرگرمیوں اور قدرتی موسمی عوامل نے مل کر 65 برسوں بعد ہمالیہ کے خطے کے برفانی گلیشیئرز میں بارود کا ایک نیا ڈھیر جمع کر دیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی چنگاریاں دن بدن بارود کے اس ڈھیر کے قریب بڑھتی جا رہی ہیں۔











