فرانس نے غزہ کی جنگ کے تقریباً دو سال بعد پیر کو نیویارک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا۔
پیرس نے برطانیہ، کینیڈا اور دیگر مغربی اتحادیوں کا ساتھ دیا جنہوں نے اتوار کو یہی تاریخی اقدام کیا تھا اور اسرائیل کی طرف سے اس پر شدید رد عمل سامنے آیا۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین کے پُرامن دو ریاستی حل پر عملدرآمد کے لیے پیر کو بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز ہوا جس کی صدارت فرانس اور سعودی عرب نے مشترکہ طور پر کی۔
مزید پڑھیں
کانفرنس میں رہنماؤں، سفارتکاروں اور ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کا مقصد تنازعات کے خاتمے کے لیے طریقے تلاش کرنا، فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی سپورٹ اور خطے میں منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو مضبوط بنانا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے اپنے خطاب میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور کہا وہ امن کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’غزہ جنگ کے خاتمے کا وقت آ گیا، ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے جاری رہنے کا جواز فراہم کرے۔ غزہ بحران کا واحد حل دوسرے فریق کی قانونی حیثیت اور انسانیت کو تسلیم کرنا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں دو ریاستی حل کے امکان کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ یہی امن کا واحد حل ہے۔‘

انہوں نے سفارتی اقدام کا اعلان کرنے سے پہلے کہا کہ ’فلسطینی عوام کے جائز حقوق کو تسلیم کرنے سے اسرائیلی عوام کے حقوق سے کچھ بھی کم نہیں ہوگا۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل ممکنہ ردعمل کے طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کے حصے کو ضم کرنے اور پیرس کے خلاف مخصوص دو طرفہ اقدامات پر غور کر رہا ہے۔
امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کے خلاف اقدامات کرنے والوں کے خلاف ممکنہ نتائج سے بھی خبردار کیا ہے، بشمول فرانس کے خلاف جس کے صدر ایمانویل میکخواں نیویارک سمٹ کی میزبانی کر رہے ہیں۔
یاد رہے جنرل اسمبلی نے اس ماہ سات صفحات پر مشتمل ایک اعلامیے کی توثیق کی جس میں دو ریاستی حل کی جانب ’مضبوط اور ناقابل واپسی اقدامات‘ کا خاکہ پیش کیا گیا، جبکہ حماس کی مذمت اور اسے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا۔












