’بکھری ہے میری داستاں‘: اظہار کا حق، اجمل جامی کا کالم
’بکھری ہے میری داستاں‘: اظہار کا حق، اجمل جامی کا کالم
جمعرات 25 ستمبر 2025 10:19
اظہار صاحب ملٹری اکاؤئنٹس کے شعبے میں اہم اور ’حساس‘ ترین عہدوں پر فائز رہے (تصویر بشکریہ: گگن شاہد)
اردو زبان میں لکھی گئی چند آپ بیتیاں ایسی ہیں کہ ان کے ہم پلہ ہونا تو دور کی بات کوئی نئی ترکیب یا روداد ان شہرہ آفاق تصانیف کے قریب بھی پھٹک نہ پائی۔ شورش کی ’بوئے گل، نالہ دل، دود چراغ محفل‘ کی تاثیر ہو یا پھر جوش کے قلم سے ’یادوں کی برات‘ کا ذکر، زیڈ اے بخاری کی حاضر جوابی پر مبنی ’سرگذشت‘ ہو یا پھر ’شہاب نامہ‘ کی قلمکاری؛ ایک ایسا سماں بندھ جاتا ہے کہ قاری پہروں لکھاری کے سحر انگیز شبدوں اور بیان کیے گئے ماحول کا عملی طور پر اسیر ہوا رہتا ہے۔
طویل عرصے بعد ایک ایسی ہی روداد پڑھنے کو ملی جس نے ہفتہ بھر خوب رونق لگائے رکھی۔ یہ جناب اظہار الحق کی آپ بیتی ہے۔ منفرد، آسان فہم، سادہ، خود کو دانشور ثابت کرنے کی سعی سے کوسوں دور، اصلی، سُچی اور انتہائی کھری ہڈ بیتی۔ آپ بیتی میں روایتی پن کی جھلک ہے نہ اپنی شان میں بیسیوں صفحات کی سیاہی کا بھار۔ لمبے چوڑے مضامین ہیں نہ قصیدوں بھری خودستائشی۔ بس یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ اظہار صاحب کے ساتھ کسی طویل دورانیے کی ٹرین پر محو سفر ہیں اور اس بیچ دائیں بائیں آس پاس جو دیکھا جو سنا یا جو بیتا اس کے آپ خود عینی شاہد ہیں۔ اگر کسی لکھاری کے قلم سے ایسا کوئی کمال ہو جائے کہ پڑھنے والا خود کو فرسٹ ہینڈ عینی شاہد محسوس کرے تو اسے ہی لکھاری کا اصل چمتکار مانا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ’اظہار کا حق‘ ادا ہوا، ایسی ہی کسی صورتحال پر صادر آتا ہوگا۔
سیاست، سماج اور تاریخ کے کینوس پر دہائیوں سے ’تلخ نوائی‘ جاری رکھے ہوئے ہمارے بزرگ ادیب، نامور کالم نویس، رجحان ساز شاعر اور سابق بیورکریٹ جناب اظہار الحق کی ’بکھری ہے میری داستاں‘ بارے انتہائی مختصر تبصرے میں جناب مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے کہ یہ میری پسندیدہ خود نوشت ’جہان دانش‘ کی مانند ایک ’جہانِ اظہار‘ ہے۔ آپ اس جہان میں ایک مرتبہ اتر جائیے تو آپ پر کئی جہان منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اظہار صاحب ملٹری اکاؤئنٹس کے شعبے میں اہم اور ’حساس‘ ترین عہدوں پر فائز رہے اور گریڈ بائیس میں ایڈیشنل آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ نئی نسل کو تو شاید علم بھی نہ ہو کہ بھلے وقتوں میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے ہونہار طالب علم سکالرشپ پر اک دوجے کے ہاں جا کر اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کیا کرتے تھے، اظہار صاحب اس سلسلے میں ڈھاکہ رہے، ایم اے اکنامکس وہیں سے کیا۔ آپ بیتی کا آغاز اپنی جنم بھومی سے کرنے کی بجائے وہ قاری کو براہ راست ڈھاکہ یونیورسٹی لے جاتے ہیں۔ کومیلہ سے ڈھاکہ کی سیر کرواتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اطراف دھان ہی دھان، پٹ سن کے کھیت، سبزہ ہی سبزہ، پانی ہی پانی اور آدمی ہی آدمی ہیں۔ سلہٹ پہنچتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ یہاں پہاڑیوں جیسے مٹی کے ٹیلے ، عجب لینڈ سکیپ، ٹیلوں پر گھاس، زمین پر گھاس، درخت، ندی نالے، کہیں چائے کے باغات کہیں پھولوں کے باغ، کہیں مالٹے تو کہیں کالی مرچ دار دینی اور الائچی کے خوشبودار درخت۔ پاکستان کے اس کھوئے حصے کی خوبصورتی بیان کرتے کرتے اظہار صاحب ’تلخ نوائی‘ پر اتر آتے ہیں۔اس آپ بیتی میں دو چار ایسے واقعات رقم ہیں جو یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ آخر پاکستان دو لخت کیوں ہوا۔ مثلاً ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری کا اس دور میں بھی مسلسل چوبیس گھنٹے کھلا رہنا اور ہر وقت طلبا کا وہاں کتابوں کے ہمراہ موجود رہنا بذات خود ایک ایسی نظیر ہے جو ان نوجوانوں کے سیاسی شعور کی عکاس ہے۔ کیا ہمارے ہاں بھی کوئی لائبریری چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے؟
ڈھاکہ یونیورسٹی مزاحمتی تحریکوں کا مرکز رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اظہار صاحب بتاتے ہیں کہ وہاں یونیورسٹی میں طلبا یونین کے انتخابات خوب گج وج کے ہوا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک چناؤ میں قومی اسمبلی کے سپیکر جبار خان کے صاحبزادے بھی حصہ لے رہے تھے، ان کا نام سہیل تھا۔ ایسٹ پاکستان سٹوڈنٹس یونین (نیشنل عوامی پارٹی سے وابستگی) کی جانب سے ووٹ مانگنے ہاسٹلز میں طلبا کے کمروں میں پہنچے ۔ عوامی لیگ کی سٹوڈنٹس لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کی یونین سرکاری تنظیموں کے خلاف متحد ہو کر چناؤ لڑا کرتی تھیں۔ جبار خان کے صاحبزادے سہیل کے بارے میں واقعہ لکھا ہے کہ لڑکے اس سے پوچھا کرتے کہ تمہارا باپ سپیکر ہے ۔ تم حکومت کی مخالفت کیوں کرتے ہو؟ اس کا جواب ہوتا تھا کہ میں جبار خان کا بیٹا ہوں ، سپیکر کا نہیں۔ یہ اکلوتا واقعہ اس دور کے نوجوان طالب علم کے ہاں پائی جانے والی سیاسی فہم کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج دہائیوں بعد بھی ہمارے ہاں تلخ حقائق بارے سٹیٹ آف ڈینائل ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر اکثر و بیشتر مغربی پاکستان سے مقرر ہوتے۔ مغربی پاکستان پر کسی مشرقی پاکستانی کو گورنر نہ مقرر کیا گیا۔ ایوب خان دور میں ایک مشرقی پاکستانی عبدالمنعم خان کو گورنر مقرر کیا گیا مگر وہ گورنر سے زیادہ صاحب کا غلام تھا۔ جب مشرقی پاکستان ریڈیو سے ٹیگور کی شاعری نشر کرنے پر پابندی لگی تو شدید ردعمل آیا، پابندی ہٹانے کی مانگ کی گئی۔ عبدالمنعم خان نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے صدر ِ شعبہ ڈاکٹر عبدالحئی سے کہا کہ آخر تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے؟
مزید لکھتے ہیں کہ ایک بار صدر ایوب خان ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترے تو گورنر عبدالمنعم خان استقبال کے لیے موجود تھے، بغل گیر ہوئے تو ایوب خان کو کوئی شے چبھی۔ تلاشی کا حکم دیا گیا کہ کہیں اسلحہ تو نہیں۔ تلاشی پر معلوم ہوا کہ گورنر نے سینے کے ساتھ جناب صدر کی تصنیف ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ لگا رکھی تھی(تاکہ شرف قبولیت ہو؟)
اظہارالحق ڈھاکہ رہے اور ایم اے اکنامکس وہیں سے کیا۔ (فوٹو بشکریہ: گگن شاہد)
بقول اظہار صاحب، اس دور کے تلخ حقائق کا ادراک صرف ان پاکستانیوں کو ہوسکا جنہوں نے مشرقی پاکستان جا کر صورتحال کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ مغربی پاکستان میں رہتےہوئے سنی سنائی باتوں یا پہلے سے موجود ذہنی تعصبات کی بنیاد پر زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہوسکتا تھا۔ زبان سے لے کرتحریر تک، خوراک سے لے کر لباس تک، تاریخ سے لے کر جغرافیے تک، کسی میدان میں ہم آہنگی نہ تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کا اتحاد ایسے ہی تھا جیسے تامل ناڈو اور یو پی کو ملا کر کیرالہ اور پنجاب کو ملا کر یا نیپال اور سندھ کو ملا کر ایک ایک ملک بنا دیا جائے۔ ان کے بقول اس مخاصمت کا آغاز اس وقت ہوا جب کسی عاقبت نااندیش نے قائد اعظم کو وہ تقریر لکھ کر دی جو انہوں نے ڈھاکہ میں کی اور اردو کو واحد قومی زبان قرار دیا۔ دونوں حصوں کی سماجی کمپوزیشن بھی انتہائی مختلف تھی، مشرقی پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہیں تھا ، خواندگی کی شرح زیادہ تھی۔ عوامی نمائندے تمام کے تمام اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ مغربی پاکستان اس کے مقابلے میں ایک فیوڈل اور قدیم طرز کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔
اظہار الحق لکھتے ہیں کہ ایک بار مولوی فریدالدین صاحب لنگی میں ملبوس یہاں مغربی پاکستان میں کسی سرکاری میس میں چلے گئے تو انہیں باقاعدہ گالیاں دے کر تذلیل کرتے ہوئے وہاں سے نکالا گیا۔ یہاں رعونت تھی وہاں خواندگی اور سیاسی شعور۔ انتہا یہ تھی کہ ایک بار جب سینیٹری کا غیر ملکی سامان کابینہ کے ہتھے چڑھا تو بنگالی ارکان نے بھی اپنا حصہ مانگا۔ انہیں جواب دیا گیا کہ تم لوگ تو رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو، تمہیں اس سامان کی کیا ضرورت؟
جناب اظہار الحق جیسے کچھ افراد شاید اب بھی باقی ہیں جو اس دکھ اور اس دور کی تلخیوں کے شاہد ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اب بھی دونوں ملکوں کے بیچ بندھن اور شانتی کا پالن کرنے والے ہیں۔ یہ وہ پُل ہیں جن کی بدولت آج دونوں ممالک کے بیچ ایک بار پھر گرمجوشی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کاش فیصلہ ساز ایسے دو چار بزرگوں کو دوبارہ ڈھاکہ بھیجیں، انہیں محسن ہال سے لے کر یونیورسٹی کی لائبریری تک رسائی ملے، یہ اپنے پرانے کلاس فیلوز کو ڈھونڈیں۔ ان کیساتھ کچھ خوشگوار یادیں تازہ کریں، نوجوان نسل کے ہمراہ وی لاگز ہوں، بچھڑے ہوئے دوستوں کے ملن پر کہانیاں جنم لیں۔ تعلقات کے تلخ تجربات کی دھاروں پر باہمی محبت کے چند پھول نچھاور کیے جائیں۔ کاش !
نوٹ: اس تحریر کا دوسرا حصہ اگلے ہفتے پیش کیا جائے گا۔