Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر حرف میں فن‘، سماح البیتی کی خطاطی کا سفر

ایک نوجوان سعودی آرٹسٹ مربع کوفی خطاطی کی جیومیٹری کے ذریعے اپنے فن کا اظہار کرتی ہیں، جہاں وہ عربی حروف کو جدید ڈیزائنز میں ڈھال کر نظم و ضبط اور تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
سماح البیتی نے اپنی ذاتی تخلیقی سفر کو سعودی وژن 2030 کے اس وسیع تر ہدف سے ہم آہنگ کیا ہے جو ورثے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے پر مرکوز ہے۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے ابتدائی سفر اور اُن تجربات کو بیان کیا جس نے عربی خطاطی اور اسلامی ڈیزائن کے میدان میں اُن کے فنکارانہ کیریئر کو تشکیل دیا۔
خطاطی سے اُن کا پہلا تعارف جذبے اور تجسس سے بھرپور تھا۔ وہ بچپن سے اپنے والد کو عربی حروف نہایت مہارت اور سکون کے ساتھ لکھتے ہوئے دیکھتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے اندر یہ بات رچ بس گئی کہ حروف صرف لکھے ہوئے الفاظ نہیں ہوتے بلکہ ایک ایسا فن ہیں جنہیں خوبصورت پینٹنگز میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اُن کے والد کے اثر نے انہیں ہر لکیر کو ایسے ڈیزائن کے طور پر دیکھنے پر مجبور کیا جو معنی سے بھرپور ہو۔
البیتی کی والدہ نے بھی اُن کی صلاحیتوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ ’میری والدہ ہمیشہ میری قابلیت پر یقین رکھتی تھیں اور مجھ سے کہتی تھیں کہ میں اپنے فن پاروں سے کمروں کو سجاؤں، جس سے مجھے یہ اعتماد ملا کہ میں ایک بامقصد راستے پر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہی اعتماد اُن کے طویل فنکارانہ سفر کے آغاز کا محرک بنا۔
کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں اسلامی ڈیزائن اور تزئین و آرائش کی تعلیم نے اُن کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس شعبے نے میرے لیے ایک نئی دنیا کے دروازے کھولے، جس کے ذریعے میں نے یہ سمجھا کہ خطاطی اور تزئین کس طرح جمالیاتی ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
اسی کے ذریعے میں نے کوفی خطاطی کی بنیادی باتیں اور رنگوں کے استعمال کی تکنیک سیکھیں، جس نے مجھے اپنا منفرد انداز تخلیق کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔
البیتی خاص طور پر مربع کوفی خطاطی کی طرف مائل تھیں۔ انہوں نے اس انداز کی جیومیٹری کی خوبصورتی اور توازن کو اپنے لیے انتہائی دلکش قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’مربع کوفی خطاطی میری شخصیت کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر اس کی درستگی اور نظم و ضبط کے حوالے سے، اور میرے لیے یہ لامحدود تخلیقی صلاحیتوں کا ایک میدان ہے۔
جدہ میں ’سمفنی وِد لیٹرز‘ نمائش میں ان کی پہلی شرکت ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔
انہوں نے پہلی بار اپنے فن پارے عوام کے سامنے پیش کرنے پر فخر کا اظہار کیا اور بتایا کہ لوگوں کی دلچسپی نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ خاص طور پر اس لیے کہ بہت سے لوگوں نے ان کے ایک گول ڈیزائن کو پڑھنے کی کوشش کی، جس میں امام الشافعی کی حکمت شامل تھی۔
البیتی نے میڈیا شخصیات اور خطاطوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کو بھی نمایاں کیا۔

جن لوگوں نے ان کی حمایت کی ان میں خطاط محمد الحرازی شامل ہیں، جنہوں نے انہیں ’دیوانی سٹائل‘ میں تربیت دی، فنکار سعود خان نے انہیں اپنی نمائش میں حصہ لینے کی ترغیب دی اور میڈیا شخصیت جمیل الحارثی نے انہیں فنونِ لطیفہ کی نمائشوں کی دنیا سے متعارف کروایا۔
نئی جدت کی خواہش سے متاثر ہو کر، البیتی نے نئے مواد جیسے دھاگا، کیلیں اور کافی کیپسولز کے ساتھ تجربات شروع کیے۔ یہ ان کی روایت سے ہٹ کر فن اور پائیداری کو یکجا کرنے کی خواہش کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا مشن لوگوں کو اپنے فن پاروں کے ذریعے شعور اور خوبصورتی کے لمحات کا تجربہ کروانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہر نمائش میں شرکت میرا ایک نیا قدم ہوتی ہے جو میرے سفر کو مالا مال کرتی ہے۔
البیتی نے آخر میں کہا کہ وژن 2030 انہیں فن کو ثقافتی اظہار کا پُل بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔
میں یقین رکھتی ہوں کہ ہمارے لیے بطور آرٹسٹ یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی میراث کو دنیا کے سامنے اس انداز میں پیش کریں جو اس کی گہرائی اور اصلیت کی عکاسی کرے، تاکہ یہ ہماری ثقافت کی خوبصورتی کی گواہی بنتی رہے۔

شیئر: