Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سمندروں پر حکمرانی‘، 50 سال بعد مملکت میں روایتی جہاز سازی کی بحالی کی کوششیں

’ایسٹرن کوسٹ فیسٹیول‘ کی وجہ سے تقریباً 50 سال کے بعد جہاز سازی پھر سے متعارف ہوئی۔ (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب کے انتہائی جنوب میں واقع ساحلوں پر جہاں بحیرۂ احمر، فرسان کے جزیروں سے جا ملتا ہے، تہذیبی میراث کے محقِق اور میری ٹائم کے ماہر ابراہیم مفتاح اکثر ساحل پر کھڑے اُفق کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ساحل سے ٹکرانے والی موجیں مفتاح کے لیے لکڑی سے بنے ان بڑے بڑے جہازوں کی یادیں اپنے ساتھ لاتی ہیں جن سے کبھی ان پانیوں کے بطن سے زندگی کی تعریف متعین ہوتی تھی۔ وہ جہاز روزگار کا ذریعہ تو تھے ہی مگر جذبۂ افتخار، ہنرمندی اور سمندر سے رشتے کی ایک علامت بھی تھے۔
البتہ آج مفتاح کو ڈر ہے کہ وہ روایت رفتہ رفتہ دور ہو رہی ہے۔ ’مجھے یہ سوچ افسردہ کرتی ہے کہ وہ اجداد جنھوں نے جزائر الفرسان پر اس ہنر کو تختۂ مشق بنایا تھا، دنیائے عدم میں جا بسے ہیں۔ بس کہیں کہیں کوئی ہنرمند نظر آ جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’بہت سے غوطہ خور جو موتییوں کی تلاش میں پانی میں اترا کرتے اور شیل جمع کیا کرتے تھے، اب نہیں ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے اور نوجوان نسل سمندر کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مفتاح نے ’سنبوک‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس نے نقشوں، توضیحات اور تفصیلی بیان کے ذریعے روایتی جہازوں کو دستاویزی شکل میں محفوظ کیا ہے۔ ان کے لیے کتاب لکھنے کا مقصد مستقبل کی نسلوں کے لیے جہاز سازی کی میراث کو مٹننے سے بچانا تھا۔
مفتاح کو یقین ہے کہ جہاز سازی کا ہنر اُس وقت کم ہونا شروع ہوا جب جدیدیت، چلتے چلتے ساحلوں تک پہنچ گئی۔۔۔ جب بادبان، باہر سے آنے والے جہازوں اور موٹر والے انجنوں کی زد میں آنا شروع ہوئے اور جب تعلیم اور نئے پیشہ ورارنہ مواقع، نوجوانوں کو بندرگاہوں کی محنت سے دور لے گئے۔
میرے علم کے مطابق اس ہنر کو زندہ کرنے کے لیے کوئی فعال یا وقف پروگرام نہیں ہیں اگرچہ اب تک یہ ہماری تاریخی میراث کا لازمی حصہ ہے۔

جہاز اور کشتیاں روزگار اور فخر کا باعث تھیں۔ (فوٹو: سپلائیڈ)

ان چیلنجز کے باوجود سعودی جہاز سازی کی کہانی مکمل نقصان کی داستان نہیں۔ اس ہنر میں نئی روح پھونکنے کے لیے مملکت میں نئی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
روایتی صنعتوں کا تحفظ، وزارتِ ثقافت اور ہیرٹِج کمیشن کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے اور کمیشن اسے سعودی عرب کی ثقافتی شناخت کی کلید سمجھتا ہے۔
جازان میں تاریخی ورثے سے مزین دیہات، آنے والوں کو اب بھی ماضی کی وہ جھلک دکھاتے ہیں جہاں پرانی لکڑیوں سے بنی کشتیاں اور جہاز بھی ہیں اور میری ٹائم آلات بھی۔
مشرقی صوبے میں مقبول ’ایسٹرن کوسٹ فیسٹیول‘ کی وجہ سے، تقریباً 50 سال کے انحاط کے بعد جہاز سازی پھر سے متعارف ہوئی ہے۔
اس فیسٹیول میں ہنرمند کاریگر ’قلافہ‘ کے فن کو لوگوں کے سامنے لاتے ہیں۔ یہ لکڑی سے جہازی سازی کا ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں خصوصی آلات اور احتیاط سے منتخب کی گئی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔

چیلنجز کے باوجود سعودی جہاز سازی کی کہانی مکمل نقصان کی داستان نہیں۔ (فوٹو:سپلائیڈ)

 لکڑی کو بل دینے سے لے کر تختے ٹھونکنے تک ہر کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے اور یوں وہ جہاز تیار ہوتا ہے جو سمندر میں موجوں کے تھپیڑوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتا ہو۔
کاریگر نصر عبدالطیف الدھیم اس روایت کے پاسبان ہیں۔ وہ جہاز سازی کو خلیج کا سب سے قدیم معمول قرار دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہر جہاز کو تیار کرنے کے پس منظر میں ایک مقصد ہوتا تھا۔ چھوٹی کشتیاں ماہی گیری کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور جہاز تجارت کے لیے جبکہ دیگر جہاز اُس کاروبار کے لیے استعمال ہوتے تھے جس کی کبھی سمندروں اور ساحلوں پر حکمرانی تھی: یعنی موتیوں کی تلاش میں غوطہ خوری۔
بڑے جہاز بنانے میں سال یا اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا تھا جبکہ چھوٹے جہاز تین سے چار ماہ میں تیار ہو جاتے تھے۔ پانچ سے دس کاریگر مل کر ایک جہاز کی تیاری میں جُٹ جاتے۔ ’یہ کام جسمانی اعتبار سے  مشقت طلب ہوتا تھا لیکن اس کی ایک ثقافتی حیثیت بھی ہوتی تھی جسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔
بحالی کی ان کوششوں کا وقت بہرحال اہمیت کا حامل ہے۔ سعودی عرب نے اعلان کر رکھا ہے کہ سنہ 2025 ’دستکاری کا سال‘ ہوگا۔ چنانچہ بہت سے وسائل اور بھرپور توجہ، لکڑی کی مدد سے جہاز سازی جیسی صنعت کے تحفظ کی جانب مبذول ہو چکی ہے۔

اس انیشی ٹِیو میں خاص تربیتی پروگرام، مقابلے اور تعلیمی تحقیق کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی نمائشوں کا انعقاد بھی شامل ہے جن کا مقصد سعودی ہنرمندی اور کاریگری کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔
روایتی فنون کا رائل انسٹی ٹیوٹ، تعلیمی پروگرام مرتب کر کے اس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادار کر رہا ہے اور یقینی بنا رہا ہے کہ سعودی نوجوان روایتی مہارتوں سے رسمی طور پر رُوشناس ہوں اور اسے آگے بڑھائیں۔
ہیرٹِج کمیشن کی حکمتِ عملی وسیع البنیاد ہے۔ وہ بڑے بڑے ایونٹس منظم کر رہا ہے جن میں ریاض میں ہونے والا ’سعودی انٹرنیشنل ہینڈی کرافٹس ویک‘ شامل ہے جہاں شرکا عملی طور پر ورکشاپس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ کمیشن کی توجہ روایت کو دستاویزی صورت میں محفوظ کرنے میں بھی لگی ہوئی ہے۔

جازان ہیرٹِج ویلج کی سبوک کشتی (فوٹو: الرے نیوز)

کتابیں، تحقیقی منصوبے اور دستاویزات کے ذخیروں پر توجہ دینے والے انیشی ٹِیوز، روایتی جہاز سازی کی تاریخ کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ماہی گیری، موتیوں کی تلاش میں غوطہ خوری اور تجارت کے لیے جہازوں اور کشتیوں کا کردار اس تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔
سیاحت اس پر مستزاد ہے۔ ثقافتی فیسٹیول اور دیہات اپنے دامن میں تہذیبی وراثت سنبھالے یہاں آنے والوں کو قریب سے اِس ہنر کی جھلک دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں جو بحری میراث کو روزگار کے ایک انٹرایکٹیو تجربے میں بدل رہے ہیں۔
سعودی عرب کے لیے تیزی سے جدت میں ڈھلتی ہوئی دنیا میں یہ ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے اور قومی شناخت کو مضبوط بنانے کا ایک عمل ہے۔ بس یاد یہ رکھنا ہے کہ ساحل پر بسنے والی کمیونیٹیوں کی زندگی میں سمندر کی حیثیت کس طرح مرکزی رہی ہے۔

شیئر: