مجوزہ غزہ امن منصوبہ، ٹرمپ کا ردعمل کے لیے حماس کو الٹی میٹم
صدر ٹرمپ نے مجوزہ امن منصوبے کا اعلان پیر کو اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’غزہ امن منصوبے‘ پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے حماس کو الٹی میٹم دے دیا ہے جبکہ اس کے رہنماؤں نے اس مںصوبے کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے جس کو اسرائیل کی حمایت بھی حاصل ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر نے حماس سے کہا کہ وہ ’تین سے چار روز کے اندر ردعمل ظاہر کرے۔‘
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کے گئے 20 نکات پر مشتمل دستاویز میں جنگ بندی کا معاہدہ، حماس کے پاس موجود یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کی قید سے فلسطینیوں کی رہائی، غزہ سے فوج کے انخلا، حماس کو غیر مسلح کیے جانے اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے غزہ کی دوبارہ آباد کاری کے پوائنٹس بھی شامل ہیں۔
دیگر نکات کے مطابق اقوام متحدہ اور ریڈ کریسنٹ سمیت دیگر غیرجانبدار امدادی اداروں کو غزہ میں بڑے پیمانے پر امدادی سامان لے جانے کی اجازت دی جائے گی اور فلسطینیوں کو جبری طور پر علاقے سے نہیں نکالا جائے گا۔
غزہ میں سکیورٹی کی نگرانی کے لیے امریکہ ایک عبوری اتھارٹی کے قیام کے لیے عرب اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
اس میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کا ابتدائی طور پر محدود کردار ہو گا اس کا کردار بڑھانے سے قبل اصلاحات کی جائیں گی، جس کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ اتھارٹی بالآخر نظام چلانے کے قابل ہو جائے۔
دوسری جانب سعودی عرب، مسلم ممالک اور دنیا کی دوسری بڑی قوتوں نے اس مجوزہ مںصوبے کا خیرمقدم یا ہے تاہم ابھی تک اس پر حماس کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جب منصوبے پر عملدرامد کے لیے ٹائم فریم کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم اس پر تین سے چار روز کے اندر کام کرنے جا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم صرف حماس کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ایسا کرنے جا رہی ہے یا نہیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو صورت حال ایک افسوسناک اختتام کی طرف بڑھے گی۔‘
صدر ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ امن منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کی اسرائیلی وزیراعظم نے بھی حمایت کی تھی۔
منگل کو فلسطین کے ایک سورس کی جانب سے شناخت نہ کرنے کی شرط بتایا گیا کہ حماس نے مجوزہ امن منصوبے پر مشاورت شروع کر دی ہے جس میں اس کے فلسطین یا بیرون ملک موجود سیاسی اور جنگجو قائدین شامل ہیں۔‘
سورس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ مشاورت کئی روز تک چلے کیونکہ صورت حال کافی پیچیدہ ہے۔‘
قطر جو حماس کی جلاوطن قیادت کی میزبانی کرتا ہے، کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گروپ نے ’ذمہ داری کے ساتھ‘ مجوزے منصوبے کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔
قطر، جو حماس کی جلاوطن قیادت کی میزبانی کرتا ہے، نے کہا کہ گروپ نے "ذمہ داری کے ساتھ" تجویز کا مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ منگل کو بعد میں حماس اور ترکی کے ساتھ ملاقات کرے گا۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کا کہنا ہے کہ ’ردعمل کے حوالے سے بات کرنا ابھی بہت قبل از وقت ہے تاہم ہم بہت پرامید ہیں کیونکہ یہ مںصوبہ بہت جامع ہے۔‘