مذاکرات ناکام، فنڈنگ ڈیل نہ ہونے پر امریکہ شٹ ڈاؤن میں داخل
صدر ٹرمپ نے شٹ ڈاؤن کا ذمہ دار ڈیموکریٹس کو قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں بجٹ کے معاملے پر تعطل نہ ٹوٹ سکا اور ملک شٹ ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹریپ اور قانون سازوں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے جن میں گرما گرمی کی اطلاعات بھی ہیں، تاہم اس کے باوجود بھی حکومتی فنڈنگ کے معاملے پر ہونے والا تعطل نہ ٹوٹ سکا۔
یہ امریکہ کی تاریخ میں ہونے والی طویل ترین بندش کے پہلا شٹ ڈاؤن ہے، تقریباً سات سال قبل ہونے والی وہ بندش 35 روز تک چلی رہی تھی۔
شٹ ڈاؤن میں متعدد وفاقی محکمے اور ایجنسیاں کام کرنا بند کر دیتی ہیں جس سے لاکھوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین متاثر ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے ڈیموکریٹس پر مذاکرات میں تعطل کا الزام لگایا گیا ہے اور جماعت اور اس کے ووٹرز کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
انہوں نے اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم بہت سے لوگوں کو فارغ کرنے جا رہے ہیں جو بہت متاثر ہونے والے ہیں اور وہ ڈیموکریٹس ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس شٹ ڈاؤن سے کافی مثبت چیزیں بھی سامنے آ سکتی ہیں اور اس دوران ہم بہت سی ایسی چیزوں سے چھٹکاراہ حاصل کر لیں گے جن کو ہم نہیں چاہتے اور یہ سب ڈیموکریٹس کا ہو گا۔‘
رپورٹس کے مطابق شٹ ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ملک کی 400 سے زائد وفاقی ایجنسیاں غیرمعینہ مدت تک بند رہیں گی، جس کا ذمہ دار وائٹ ہاؤس کی جانب سے ڈیموکریٹس پارٹی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
100 رکنی سینیٹ میں عارضی فنڈنگ بل پاس کرانے کے لیے 60 ووٹ درکار تھے جبکہ حکمران جماعت کے پاس 53 ووٹ تھے۔
خیال رہے اس سے قبل 2018 میں بھی صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کو طویل ترین شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا تھا جو 35 روز تک جاری رہا تھا۔
امریکہ میں نیا مالی سال یکم اکتوبر کو شروع ہوتا ہے اور اس بار یہ بجٹ کی مںظوری کے بغیر ہی شروع ہو رہا ہے۔