مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر بالواسطہ مذاکرات شروع
مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر بالواسطہ مذاکرات شروع
پیر 6 اکتوبر 2025 20:57
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر میں ہونے والے مذاکرات میں شریک اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کاروں پر زور دیا تھا کہ وہ ’تیزی سے آگے بڑھیں۔‘ (فوٹو: اے پی)
مصر کے شہر شرم الشیخ میں پیر کے روز اسرائیل اور حماس کے نمائندوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا ہے، جن کا مقصد جنگ بندی اور قیدیوں و مغویوں کے تبادلے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
خبر رسان ادارے اے ایف پی نے مصر کی ریاستی انٹیلی جنس سے وابستہ ’القاہرہ نیوز‘ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ مذاکراتی وفود ’قیدیوں اور زیرِ حراست افراد کی رہائی کے لیے زمینی حالات کی تیاری‘ پر بات چیت کر رہے ہیں، جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے منصوبے کے تحت کی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’مصری اور قطری ثالث دونوں فریقوں کے ساتھ مل کر قیدیوں کے تبادلے کا ایک مؤثر طریقہ کار وضع کرنے پر کام کر رہے ہیں۔‘
مذاکرات سخت سیکیورٹی میں بند دروازوں کے پیچھے ہو رہے ہیں، جہاں دونوں فریقین کے درمیان براہِ راست نہیں بلکہ ثالثوں کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔
مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب چند ہفتے قبل اسرائیل نے قطر میں حماس کے مرکزی مذاکرات کاروں پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
دوحہ حملے سے بچنے والا وفد مذاکرات کی قیادت کر رہا ہے
مصری سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ، جو دوحہ میں اسرائیلی حملے میں بچ نکلے تھے، مذاکرات سے قبل مصری انٹیلیجنس حکام سے ملاقات کر چکے ہیں۔
حماس کے قریبی ایک فلسطینی ذریعے کے مطابق مذاکرات کئی روز جاری رہیں گے۔
’انتہائی مشکل اور پیچیدہ مذاکرات ہوں گے‘
ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ قابض (اسرائیل) کی نیت نسل کشی کو جاری رکھنے کی ہے۔‘
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جن کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کشنر کی مصر آمد متوقع ہے، نے ثالثوں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے جلد پیش رفت کریں۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق، ابتدائی قیدیوں کا تبادلہ ’چند دن‘ لے سکتا ہے۔ (فوٹو: روئٹڑز)
ادھر غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے پیر کے روز بھی جاری رہے، جن میں کم از کم سات فلسطینی شہید ہوئے۔
معاہدہ مشکل، لیکن ردعمل مثبت
اگرچہ حماس اور اسرائیل دونوں نے ٹرمپ کے منصوبے پر مثبت ردعمل دیا ہے، تاہم اتفاق رائے حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
اس منصوبے میں جہاں حماس کی غیر مسلح کرنے کی شق شامل ہے، جو حماس کے لیے ناقابلِ قبول خیال کی جاتی ہے، وہیں غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلاء کی بات بھی کی گئی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد بھی غزہ میں فوجی موجودگی برقرار رکھیں گے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق، ابتدائی قیدیوں کا تبادلہ ’چند دن‘ لے سکتا ہے، اور اس کا انحصار ان زمینی حالات پر ہوگا جن میں اسرائیلی افواج کا انخلا، بمباری کا خاتمہ اور فضائی کارروائیوں کی معطلی شامل ہیں۔
قبل ازیں ہونے والے مذاکرات بھی اس وقت تعطل کا شکار ہوئے تھے جب حماس کی جانب سے رہائی کے لیے تجویز کردہ فلسطینی قیدیوں کے ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا۔