Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نجکاری کے بعد فرسٹ ویمن بینک کا مستقبل کیا ہوگا؟ اماراتی کمپنی نے انتظام سنبھال لیا

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ’فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ‘ کو فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے، جو ملک کا پہلا اور واحد بینک ہے جو خواتین کے لیے مخصوص مالیاتی خدمات فراہم کرنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے تحت حکومتِ پاکستان اپنے 82.64 فیصد حصص متحدہ عرب امارات کی نامزد کمپنی کو ایک کروڑ 46 لاکھ ڈالر میں فروخت کر رہی ہے۔ 
یہ کمپنی ابوظبی کی مشہور انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی ہے جو شیخ طحنون بن زاید النہیان کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔
اس ڈیل کو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں بینکاری شعبے کی سب سے نمایاں نجکاری قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اسے انٹرگورنمنٹ کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ کے تحت شفاف طریقے سے مکمل کیا گیا ہے۔
 وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جبکہ فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط جلد متوقع ہیں۔
حکومت نے واضح کیا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف مالی لحاظ سے مستحکم سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کیا گیا ہے بلکہ اس کے ذریعے پاکستان میں بینکاری کے ڈھانچے میں اصلاحات لانے اور خواتین کے لیے مالیاتی خدمات کو مزید وسعت دینے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ 
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مخصوص مقصد کے لیے قائم کیے گئے قومی ادارے کو غیرملکی سرمایہ کار کے حوالے کیا جا رہا ہے تاکہ اسے عالمی معیار کی کارکردگی، انتظامی ماڈرنائزیشن اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایک نئے دور میں داخل کیا جا سکے۔
فرسٹ ویمن بینک کی تاریخ پاکستان میں خواتین کی معاشی خودمختاری کے ایک اہم باب سے جُڑی ہے۔ یہ بینک 1989 میں اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے وژن کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ 
اس کا مقصد خواتین کے کاروباری طبقے کو مالیاتی نظام میں شامل کرنا، ان کے لیے آسان قرضوں کی فراہمی، بچت کے منصوبے، مالی مشاورت اور کاروباری تربیت کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ 
ابتدا میں یہ ادارہ ایک علامتی اور ترقی پسند تصور کے طور پر اُبھرا جس نے ہزاروں خواتین کو کاروبار اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کا حوصلہ دیا۔ 
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی مسائل، سیاسی عدم استحکام، ناکافی سرمایہ کاری اور پالیسی کے غیر تسلسل نے اس ادارے کی ترقی کی رفتار کو سُست کر دیا۔
کئی بار حکومتوں نے فرسٹ ویمن بینک کی بحالی یا ری سٹرکچرنگ کے منصوبے بنائے، مگر وہ عملی طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔
نجکاری کمیشن کے مطابق خریدار کمپنی آئندہ پانچ سال کے دوران کم سے کم 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرے گی تاکہ بینک کے آپریشنز، ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل بینکنگ، اور شاخوں کے جغرافیائی دائرے کو وسعت دی جا سکے۔ 
فی الوقت بینک کی ایکویٹی 3 ارب 20 کروڑ روپے ہے جس میں مزید 6 ارب 80 کروڑ روپے شامل کیے جائیں گے۔ 
اس سرمایہ کاری کے بعد بینک کو ملک بھر میں توسیع دینے کے منصوبے پر کام شروع ہو جائے گا جس کے تحت اس کی شاخوں کی تعداد 42 سے بڑھا کر 200 کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ 
اس توسیع کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مالیاتی خدمات صرف بڑے شہروں تک محدود نہ رہیں بلکہ چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی خواتین آسانی سے بینکنگ سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس معاہدے کی ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ نئی انتظامیہ کو بینک کے عملے میں اصلاحات کا اختیار حاصل ہو گا۔ حکام کے مطابق خریدار کمپنی کو 10 فیصد ملازمین کی فوری چھانٹی کی اجازت دی گئی ہے، تاہم باقی عملہ کم سے کم ڈیڑھ سال تک ملازمت کے تحفظ میں رہے گا۔
یہ شق اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ بینک میں انتظامی تبدیلیوں کے باوجود ملازمین کا روزگار فوری طور پر متاثر نہ ہو اور ادارہ استحکام کے ساتھ نئے مرحلے میں داخل ہو۔ 
اس سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں اس بولی کی منظوری دی گئی۔ 
اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ صرف ایک بینک کی فروخت نہیں بلکہ پاکستان میں نجکاری کے عمل میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
ان کے مطابق ’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے مالیاتی ادارے خودمختار، شفاف اور عالمی معیار کے مطابق کام کریں۔ یہ معاہدہ ہماری معاشی اصلاحات کے عزم کا ثبوت ہے اور اس سے سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہوگا۔‘
انہوں نے نجکاری کمیشن، وزارتِ خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ نجکاری کے ہر مرحلے میں شفافیت برقرار رہے۔
یہ پاکستان میں 31 سال بعد پہلی کامیاب بینک نجکاری ہے۔ ماضی میں حکومتیں متعدد بار سرکاری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، تاہم عدالتی پیچیدگیوں، سیاسی تنازعات اور سرمایہ کاروں کی عدم دلچسپی کے باعث زیادہ تر منصوبے ناکام ہو جاتے تھے۔ 
نجکاری کمیشن کے حکام کے مطابق یہ معاہدہ بینک کی ریفرنس ویلیو سے زیادہ قیمت پر مکمل ہوا ہے جو حکومتی پالیسی کی کامیابی کا مظہر ہے۔
پاکستان میں نجکاری کا سلسلہ 1990 کی دہائی میں شروع ہوا تھا جب ملک کو صنعتی و مالیاتی اداروں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے مختلف سرکاری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی پالیسی متعارف کرائی گئی۔ 
تاہم یہ عمل کبھی بھی تسلسل کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکا۔ سیاسی حکومتوں کی تبدیلی، انتظامی رکاوٹیں اور کرپشن کے خدشات نے اس پالیسی کو غیر مؤثر بنا دیا۔ 
اب شہباز شریف کی حکومت نے نجکاری کے اس عمل کو دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فرسٹ ویمن بینک کی فروخت اس سمت میں پہلا بڑا قدم ہے۔
بینکاری ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر خریدار کمپنی اعلان کردہ سرمایہ کاری پوری کرتی ہے تو پاکستان میں خواتین کی مالیاتی شمولیت کے ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے۔ 
مالیاتی تجزیہ کار سدرہ فاطمہ کے مطابق ’پاکستان میں اس وقت خواتین کی محض 13 فیصد آبادی رسمی بینکنگ نظام سے منسلک ہے۔ اگر یہ بینک اپنی برانچز کو دیہی علاقوں تک پھیلا دیتا ہے تو یہ خواتین کو کاروباری دنیا میں قدم رکھنے اور مالی خودمختاری حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرے گا۔‘
ان کے مطابق ’نجکاری کے بعد اگر ٹیکنالوجی پر مبنی جدید بینکنگ ماڈلز متعارف کرائے جائیں تو یہ بینک دوبارہ اپنے اصل مقصد یعنی خواتین کے مالی استحکام کے لیے فعال ہو سکتا ہے۔‘
حکومت پاکستان اس ڈیل کو ایک علامتی کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ نجکاری کمیشن کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گا بلکہ ملک میں اعتماد کی فضا بحال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

شیئر: