قدرتی حسن سے مالا مال جازان جہاں قدم قدم پر سبزہ نظر آتا ہے
جازان کا رنگا رنگ منظرنامہ، جس کی تشکیل مشرق کے پہاڑوں سے اترتی ہوئی وادیاں کرتی ہیں، اب ایک ایسے منظر میں بدل چکا ہے جہاں زرخیز زمینوں میں بہتا پانی اور سر سبز چراگاہیں زراعت کے احیا کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہاں کے شہروں اور دیہات کو پھلنے پھولنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔
تاریخ دان ان وادیوں کو اپنی تحریر جبکہ شاعروں نے انھیں اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور انھیں ایسے سنگ ہائے میل کے طور پر تسلیم کیا ہے جو قدرتی حسن سے مالا مال ہیں، جہاں قدم قدم پر سبزہ نظر آتا ہے اور جہاں کے موسم، زراعت کی مدد کو آتے ہیں۔
محقق محمد بن حسن ابو عقیل نے جازان کی وادیوں کی تاریخی اہمیت کا گہری تنقیدی نگاہ سے مطالعہ کیا ہے اور جازان کی مقامی زندگی پر ان وادیوں کے اثر کو، زراعت کی کثرت کی علامت قرار دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ خوشی کا موسم بادلوں کی گھن گرج اور بارش سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد پانیوں کی خشبو وادیوں کو معطر کر دیتی ہے۔ یہی وہ اشارہ ہوتا ہے جس کے بعد کاشتکار بوائی کی لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
ابو عقیل کا کہنا ہے کہ جازان کی وادیوں کو دیکھ کر پودے اگانے کا نیا سیزن شروع ہوتا ہے جن میں مختلف طرح کی گھاس اور تِلوں کے پودے بھی شامل ہیں۔ اس بوائی کا کام موسمِ خزاں کے آغاز کے ساتھ ہی 23 اگست کو شروع کیا جاتا ہے۔
جازان کی گھاس طرح طرح کی اقسام کے باعث مشہور ہے اور یہاں کے پیلے بھٹے بھی لوگوں میں بہت مقبول ہیں۔

مقامی رہائشیوں اور جازان کی وادیوں کے درمیان تعلق بہت قدیم اور گہرا ہے جس نے انھیں ایک ثقافتی، سماجی اور معاشی مرکز میں تبدیل کر دیا ہے۔
اسی وجہ سے جازان میں سیاحوں کی دلچسپی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔
قدرتی مناظر کے شوقین افراد بھی جازان کے دلفریب منظرنامے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور یہاں کھنچے چلے آتے ہیں جہاں انھیں بھٹے اور غلے کے کھیت بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور زمین کے ایسے قطعات بھی جنھوں نے سبز رنگ اوڑھا رکھا ہوتا ہے۔