پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات انڈیا سے دوستی کی قیمت پر نہیں ہیں: امریکی وزیر خارجہ
اتوار 26 اکتوبر 2025 16:04
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط پر ’انڈیا کی فکرمندی‘ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ (انڈینز) فطری وجوہات کی بنا پر فکرمند ہیں کیونکہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تاریخی طور پر کشیدگی رہی ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سنیچر کو دوحہ روانگی سے قبل صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ(پاکستان سے تعلق) انڈیا یا کسی اور کے ساتھ اچھے تعلقات کی قیمت پر یا اس کے متبادل کے طور پر سامنے نہیں آیا ہے۔‘
انہوں نے’فطری وجوہات‘ کو انڈیا کی فکرمندی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں انہیں(انڈینز کو) یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمیں مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنا ہوتے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے سٹریٹجک تعلقات کو وسعت دینے کا موقع دیکھ رہے ہیں اور میرے خیال میں ہمارا کام ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کتنے ممالک کے ساتھ ہم مشترکہ مفادات پر کام کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں انڈینز سفارت کاری اور اس نوعیت کے معاملات میں بہت بالغ رویہ رکھتے ہیں۔ دیکھیں! ان کے کچھ ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں جن کے ساتھ ہمارے تعلقات نہیں ہیں۔ تو یہ ایک بالغ اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔‘
’مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات یا دوستی کی قیمت پر ہو رہا ہے جو کہ گہری، تاریخی اور اہم ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے روابط سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس (امریکہ کے کردار) کی قدر کی، جب بھی آپ کسی کے ساتھ کام کرتے ہیں، تو آپ انہیں جاننے لگتے ہیں اور ان کے ساتھ معاملات کرتے ہیں اور اس لحاظ سے مجھے لگتا ہے کہ اس میں کچھ خوشی کا عنصر ضرور تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن اس تنازع کے شروع ہونے سے پہلے ہی میں نے ان سے رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ دیکھیں ہم آپ کے ساتھ اتحاد کو دوبارہ قائم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں یعنی ایک سٹریٹجک شراکت داری۔ ہمیں لگتا ہے کہ کچھ ایسے شعبے ہیں جن میں ہم مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘
مارکو روبیو نے مزید کہا کہ ہمیں انڈیا اور دیگر معاملات سے متعلق چیلنجز کا مکمل ادراک ہے لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ان ممالک کے ساتھ شراکت داری کے مواقع پیدا کریں جہاں یہ ممکن ہو۔‘
’پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی اور اسی نوعیت کے معاملات میں ہماری طویل شراکت داری رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو اس دائرہ کار کو مزید بڑھایا جائے، ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ مشکلات اور چیلنجز ضرور ہوں گے۔ لیکن میرے خیال میں یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ یہ تعلق جس انداز میں مضبوط ہوا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ انڈیا یا کسی اور کے ساتھ اچھے تعلقات کی قیمت پر یا اس کے متبادل کے طور پر آیا ہے۔‘
حالیہ مہینوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف نے واشنگٹن کا دورہ کیا جہاں انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں باضابطہ دعوت دی گئی۔
یہ دورہ کئی برس بعد کسی اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفد کی امریکی قیادت سے براہِ راست ملاقات کا موقع تھا جسے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی روابط کی بحالی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کے بارے میں متعدد مثبت بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ’ایک مضبوط اور سمجھدار فوجی رہنما‘ قرار دیا جبکہ شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کو ’تعمیری اور خوشگوار‘ قرار دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس موقعے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں نوبل امن انعام کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا تھا۔
