Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرحد کی بندش، افغانستان میں روزی کمانے والے ہزاروں پاکستانی گھر لوٹنے کے منتظر

پاکستان میں علاج اور کاروبار کے لیے آئے افغان شہریوں کے ویزوں کی معیاد ختم ہو رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان کے ضلع چمن میں سرحد پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ٹرکوں کی قطاریں لگی ہیں، مزدور خالی ہاتھ بیٹھے ہیں اور دونوں طرف لوگ بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ راستہ کب کھلے گا۔ سرحد کے اُس پار افغان علاقے سپین بولدک میں بھی یہی مناظر ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد یہ گزرگاہ اب 19 روز بھی بند ہے۔ تجارت، آمدورفت اور معمولاتِ زندگی سب کچھ ٹھپ ہو چکا ہے۔ دونوں جانب  ہزاروں پاکستانی اور افغان باشندے  پھنسے ہوئے ہیں۔
چمن میں سرحد پر کام کرنے والے مزدوروں کی تنظیم کے رہنما صادق اچکزئی کا کہنا ہے کہ لوگوں کو قطراور ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد حالات بہتر ہونے اور سرحد کھلنے کی امید تھی مگر مذاکرات کی ناکامی کے بعد مایوسی بڑھ گئی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر واقع چمن اور طورخم کی مرکزی گزرگاہوں سمیت تمام راستے 12 اکتوبر سے بند ہیں۔ چمن کی مرکزی گزرگاہ ’بابِ دوستی‘ پر امیگریشن، دوطرفہ تجارت اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سب معطل ہیں۔ صرف افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے  مگر وہ بھی سست روی کا شکار ہے۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق عام دنوں میں چار سے پانچ ہزار افراد روزانہ پاسپورٹ پر چمن پاک افغان سرحد پار کرتے تھے جب کہ ہفتے کے اختتام پر یہ تعداد آٹھ سے 10 ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔
اس صورتحال میں  پاسپورٹ اور ویزے پر روزگار، کاروبار یا رشتہ داروں سے ملنے کے لیے جانےوالے ہزاروں پاکستانی باشندے افغانستان  میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی علاج ، تعلیم، کاروبار یا رشتہ داروں سے ملنے کے لیے آنےوالے سینکڑوں افغان باشندے سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔
چمن کے ہزاروں لوگ ہر ہفتے چمن سے افغان سرحدی شہر سپین بولدک جاتے تھے جہاں وہ منڈیوں میں مزدوری یا کاروبار کرتے ہیں۔

قلعہ عبداللہ کے ایک رہائشی اسداللہ اپنی فیملی سمیت افغانستان میں پھنسے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

صادق اچکزئی بتاتے ہیں کہ سرحد کی بندش کے باعث پھنسے والوں میں زیادہ تر چمن کے یہی لوگ  شامل ہیں۔ وہ کاروباری ہفتے کے آغاز پر سنیچر کی صبح چمن سے سپین بولدک جاتے اور جمعرات کو واپس آجاتے ۔اب تین ہفتے ہوگئے ہیں، لوگ وہیں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ ان کے بیوی بچے چمن میں ہیں۔ ان کا روزگار رکا ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس بندش سے صرف مزدور نہیں  بلکہ تاجر، ڈرائیور اور وہ عام شہری بھی متاثر ہوئے ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں افغان باشندے پھنسے ہیں جو علاج، تعلیم، رشتہ داروں سے ملاقات یا کاروبار کے لیے پاکستان آئے تھے۔
چمن کے رہائشی حاجی انس سپین بولدک میں گاڑیوں کا کام کرتے ہیں وہ  کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا نظام ہی جیسے رک گیا ہے۔
’پہلے ہم سپین بولدک جاتے، ویش کی منڈی میں چار پانچ دن کام کرتے اور جمعرات کو واپس آجاتے۔ اب اٹھارہ بیس دن ہوگئے، نہ گھر جا سکتے ہیں، نہ کام چل رہا ہے۔ سرحد کی بندش نے سب کچھ برباد کر دیا۔‘

افغانستان جانے والے ہزاروں مہاجرین سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ٹائروں کا کام کرنے والے چمن کے رہائشی  محمود خان بھی تقریباً تین ہفتوں سے افغان سرحدی شہر سپین بولدک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں بلکہ بیوی اور چھوٹے بچے چمن میں ہیں۔ بڑا بیٹا تعلیم کے لیے کوئٹہ گیا ہے۔ گھر میں کوئی بڑا لڑکا نہیں ۔’میں یہاں بیٹھا ہوں، گھر والے وہاں پریشان ہیں۔ دکان بند ہے، کاروبار رک گیا ہے اور کرایے جیب سے جا رہے ہیں۔‘
محمود خان کا کہنا ہے کہ ’یہ بندش صرف معاشی نقصان نہیں ذہنی اذیت بھی دے رہا ہے۔ لوگ مایوس ہو رہے ہیں، بے روزگاری اور غیریقینی نے ذہنی دباؤ بڑھا دیا ہے۔‘
محمود خان کا کہنا ہے کہ صرف سپین بولدک اور گردونواح میں دس ہزار کے قریب پاکستانی موجود ہیں جن میں خواتین، بچے، مزدور، ڈرائیور اور تاجر سب شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً 80فیصد کا تعلق چمن سے ہے۔
قلعہ عبداللہ کے رہائشی اسد اللہ اپنی فیملی سمیت افغانستان میں پھنسے ہیں۔ انہوں نے ٹیلیفون پر بتایا کہ ’ہم رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ بچوں کے سکول کے امتحانات قریب ہیں مگر ہم واپس پاکستان نہیں جا سکتے۔‘ 

سینکڑوں مال بردار ٹرک سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

کینسر کے علاج کے لیے کوئٹہ آنے والے ایک افغان مریض کے تیماردار عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ وہ میڈیکل ویزے پر پاکستان آئے تھے۔
’ہمارے ویزے کی مدت ختم ہونے کو ہے مگر سرحد بند ہے۔ جتنے پیسے تھے وہ ہوٹلوں میں رہ کر ختم ہو گئے۔ اب سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔ ہم مہاجرین میں شامل ہو کر واپس نہیں جا سکتے کیونکہ پاسپورٹ پر اخراج کی مہر نہ لگی تو آئندہ ویزا نہیں ملے گا۔‘
عبدالعزیز کے مطابق ان جیسے کئی افغان شہری چمن، کوئٹہ اور کراچی میں پریشان بیٹھے ہیں۔ نہ یہاں سے واپس جا سکتے ہیں اور نہ ویزا بڑھا سکتے ہیں۔
صادق اچکزئی کے مطابق نہ کوئٹہ میں افغان قونصل خانہ ویزوں کی توسیع کر رہا ہے، نہ قندھار میں پاکستانی قونصل خانہ۔ لوگوں کے ویزے ختم ہو رہے ہیں اور کسی کو اندازہ نہیں کہ یہ بندش کب ختم ہوگی۔
چمن کے ایک اور تاجر نصیب اللہ بتاتے ہیں کہ تاجروں کا مال سرحد پر پھنسا ہوا ہے۔ کروڑوں روپے کے پھل اور سبزیاں تو پہلے ہی خراب ہو گئیں۔ تاجروں نے اونے پونے داموں بیچ دیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ساتھ وسطی ایشیا کے لیے سامان کی ترسیل بھی بند ہے جس سے کاروباری طبقے کو بھاری نقصان ہوا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں مذاکرات جاری ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

محمود خان کا کہنا ہے کہ سرحد پر رہنے والے اور کاروبار یا مزدوری کرنےوالوں کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔ پہلے سرحد پر آمدروفت پر پابندیاں لگائی گئیں اب ہر چند مہینے بعد ہونے والی جھڑپوں اور کشیدگی کی وجہ سے نہ صرف جانی نقصان ہورہا ہے بلکہ لوگوں کا روزگار، کاروبار  اور علاقے کی معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سرحد پر دستاویزی نظام رائج ہونے  کے باوجود حالات بہتر نہیں ہوئے۔ دونوں ممالک کو اپنے تعلقات بہتر کرنے چاہیے تاکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں آسان ہو۔
صادق اچکزئی کہتے ہیں کہ لوگ ترکیہ میں ہونے والے انتظار سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے مگر اب ان کی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ بندش طویل ہو جائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ دونوں حکومتوں کو عام لوگوں کی مشکلات کا احساس نہیں۔‘

 

شیئر: