اسرائیل کے تیمان حراستی مرکز میں قید فلسطینیوں کی تکلیف دہ حقیقت
اسرائیل کے مشہور حراستی مرکز میں قید فلسطینیوں کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی تو اس کا موازنہ عراق کی ابو غریب جیل میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کیا گیا۔
عرب نیوز کے مطابق صحرائے نیگیو میں قائم تیمان حراستی مرکز کی فوٹیج سے ملنے والے شواہد کے باوجود اسرائیلی فوج کو جواب دہ نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ ایڈوکیٹ جنرل يفعات تومر يروشالمي کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج میں تعینات ایڈوکیٹ جنرل يفعات تومر يروشالمی نے یہ ویڈیو اسرائیلی میڈیا کو جاری کی تھی جس کا انہوں نے اعتراف بھی کیا اور 31 اکتوبر کو انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
یہ ویڈیو جولائی 2024 کی تھی جس کے متعلق ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ انہوں نے اس کی ریلیز کی منظوری دی تھی تاکہ فوج کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈا کا مقابلہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا، ’جب بھی کسی قیدی کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا معقول شبہ ہو تو اس کی تحقیقات کرنا ہمارا فرض ہے۔‘
ان کے اس بیان سے واضح ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی پر پراسیکیوٹرز کو ذاتی حملوں، سخت توہین، اور سنگین دھمکیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے يفعات تومر يروشالمي کے استعفے کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ دو روز قبل پیر کو سابق ایڈوکیٹ جنرل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں جب پہلی مرتبہ یہ ویڈیو اسرائیل کے نیوز چینلز پر نشر ہوئی تو اس میں دکھائے جانے والے مظالم کا موازنہ ابوغریب میں امریکی گارڈز کی بدسلوکی کا شکار قیدیوں سے کیا گیا۔
بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھائے جانے کے باوجود صرف 12 امریکی فوجیوں کو معمولی سزائیں ہوئیں جبکہ تشدد کے نتیجے میں موت واقع ہونے پر کسی فوجی کو سزا نہیں دی گئی۔
اسی طرح سے اسرائیل کے تیمان حراستی مرکز میں ہونے والی خلاف ورزیوں میں ملوث صرف پانچ فوجیوں کو جسمانی نقصان پہنچانے پر سزا دی گئی لیکن کسی ایک کی بھی شناخت نہیں کی گئی اور نہ ہی مقدمہ چلایا گیا۔
ان پانچوں فوجیوں پر عائد الزامات میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے قیدی پر حملہ کیا، اس پر ٹیزر گن کا استعمال کیا، زمین پر لیٹے ہوئے قیدی پر اس شدت کے ساتھ کھڑے ہوئے کہ اس کا ایک پھیپھڑا متاثر ہو گیا۔ اس کے علاوہ قیدی کو چھری کے ساتھ جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
جبکہ دائیں بازو کے اسرائیلی سیاستدانوں نے ان فوجیوں کو ہیرو کے طور پر سراہا، ان کے حق میں مظاہرے کیے اور ان افراد کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے فوجیوں کو ’غدار‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کیں۔
اتوار کو اس قسم کے دعوے بھی سامنے آئے کہ يفعات تومر يروشالمی نے دائیں بازو کے ردعمل کے خوف سے غزہ میں اسرائیل فوج کے ممکنہ جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات سے گریز کیا۔
تیامن حراستی مرکز کی ویڈیو کسی ایک واقعے کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی قیدیوں کے تشدد کے واقعات دستاویز کی شکل میں موجود ہیں۔
اسرائیلی این جو او ہموقید کے نومبر 2025 کے اعداد و شمار کے مطابق 9 ہزار 204 فلسطینی اسرائیلی حکام کے زیرِ حراست ہیں۔
ان میں سے 4,573 افراد کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے یا تو انتظامی حراست میں یا غیر قانونی جنگجو قانون کے تحت رکھا ہوا ہے جو غیر معینہ مدت تک لیے جیلوں میں قید ہیں۔
