Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی نیٹ میٹرنگ پر فکسڈ چارجز وصول کرنے کی درخواست کیوں؟

پاکستان میں حکومتی بیانات کی وجہ سے سولر سے بجلی پیدا کرنے کا معاملہ اکثر خبروں میں رہتا ہے ایک بار پھر نیٹ میٹرنگ صارفین کے حوالے سے بجلی تقسیم کرنے والی سرکاری کمپنیوں کے تحفظات سامنے آئے ہیں۔
اس بار بجلی تقسیم کرنے والی دو کمپنیوں نے نیپرا کو تجویز دی ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین پر فکسڈ چارجز عائد کیے جائیں۔
فکسڈ چارجز سے مراد وہ ماہانہ مقررہ رقم ہے جو صارف کو گرڈ کے انفراسٹرکچر کے استعمال کے بدلے ادا کرنی ہوتی ہے، چاہے وہ بجلی استعمال کرے یا نہیں۔
کمپنیوں کا مؤقف ہے کہ یہ نیٹ میٹرنگ صارفین گرڈ سے نسبتاً کم بجلی لیتے ہیں، مگر گرڈ کا انفراسٹرکچر یعنی تاریں، ٹرانسفارمرز اور سٹیشنز بدستور استعمال کرتے ہیں، اس لیے انہیں اس کا کچھ خرچ برداشت کرنا چاہیے۔
گزشتہ روز منگل کو نیپرا میں ہونے والی سماعت کے دوران یہ تجویز پیش کی گئی، جب کہ اس سے قبل بھی مختلف تقسیم کار کمپنیاں، جن میں گیپکو (گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی)، میپکو (ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی) اور پیپکو (پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی) شامل ہیں، اسی نوعیت کے مطالبات کر چکی ہیں۔
مزید یہ کہ تقسیم کار کمپنیوں کا یہ بھی موقف ہے کہ سولر صارفین کو جو اضافی بجلی وہ گرڈ میں واپس بھیجتے ہیں، اس کے بدلے تقریباً 22 روپے فی یونٹ ادا کیے جاتے ہیں۔
ان کمپنیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ریٹ کم کر کے 10 سے 12 روپے فی یونٹ کر دیا جائے، کیونکہ حکومت کو یہ بجلی مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہے، جس سے پاور سیکٹر کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔
انہی مطالبات کے بعد پاور ڈویژن نے حال ہی میں نیٹ میٹرنگ صارفین سے بجلی کی خریداری کا ریٹ 10 سے 12 روپے فی یونٹ مقرر کیا تھا، تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے اس فیصلے کو عارضی طور پر معطل کر دیا۔ اب حکومت دوبارہ غور کر رہی ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے تحت بجلی خریدنے کا نیا ریٹ کیا ہونا چاہیے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ چند سال قبل تک حکومت نیٹ میٹرنگ کے نظام کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی تھی، مگر گذشتہ ایک سے دو برس میں حکومتی اداروں اور کمپنیوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ نیشنل گرڈ سے بجلی کا استعمال کم اور نیٹ میٹرنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
بجلی فروخت کرنے والی کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ اگر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد بڑھتی گئی تو بجلی کی فروخت کم ہوگی، جس سے سرکولر ڈیٹ یعنی گردشی قرضہ مزید بڑھے گا۔ اسی بنا پر حکومت نیٹ میٹرنگ اور ملک میں سولرائزیشن کے حوالے سے مختلف پالیسی فیصلوں پر غور کر رہی ہے۔
سنہ 2024 کے اختتام تک ملک میں سولر نیٹ میٹرنگ کے صارفین کی تعداد بڑھ کر 283 ہزار ہو گئی، جو اکتوبر 2024 میں 226 ہزار 440 تھی۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق نیٹ میٹرنگ کے باعث دسمبر 2024 تک بجلی کے دیگر صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا اور اگر پالیسی میں تبدیلی نہ کی گئی تو یہ بوجھ 2034 تک 4 ہزار 240 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد تقریباً تین لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے، جو بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔
اردو نیوز نے نیٹ میٹرنگ اور پاکستان کے پاور سیکٹر کو سمجھنے والے ماہرین سے گفتگو کی ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ بجلی تقسیم کار کمپنیاں نیٹ میٹرنگ صارفین سے فکسڈ چارجز وصول کرنے کی خواہش کیوں رکھتی ہیں۔

پاکستان میں سولر صارفین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے: فوٹو اے ایف پی 

توانائی امور کے ماہر علی خضر کا کہنا ہے کہ فکسڈ چارجز سے مراد یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین پر ماہانہ ایک مخصوص رقم عائد کی جائے، چاہے وہ سرکاری گرڈ سے بجلی لیں یا نہیں، کیونکہ وہ بہرحال نیشنل گرڈ سے منسلک رہتے ہیں اور جب ضرورت پڑے تو وہ اسی سسٹم سے بجلی استعمال کرتے ہیں۔
ان کے مطابق فکسڈ چارجز کا نفاذ ایک مناسب قدم ہو سکتا ہے، کیونکہ نیٹ میٹرنگ صارفین کے گرڈ سے جڑے رہنے کی وجہ سے ٹرانسمیشن سسٹم پر بوجھ برقرار رہتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کو کرنا ہے۔
دوسری جانب کراچی سے تعلق رکھنے والے توانائی کے ماہر انیل ممتاز کا کہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے نظام میں متعدد تکنیکی اور انتظامی خامیاں موجود ہیں۔
انہوں نے خاص طور پر ’سنکرونائزیشن‘ کے عمل پر سوالات اُٹھائے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں سولر سسٹم (یعنی گھر یا دفتر میں نصب سولر پینلز اور اِنورٹر) کو نیشنل گرڈ کے ساتھ ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں کے درمیان بجلی کا تبادلہ محفوظ اور مستحکم طریقے سے ہو سکے۔

پاکستان میں بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے سولر سسٹم لگوانے میں اضافہ ہوا ہے: فوٹو اے ایف پی 

انیل ممتاز کے مطابق، اس عمل کا معیار تسلی بخش نہیں اور نظام میں موجود غیر معیاری سنکرونائزیشن مستقبل میں بجلی کے نظام کے استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کو بجلی کی ادائیگی تین ماہ بعد کیوں کی جاتی ہے، جب کہ عام صارفین سے بل ہر ماہ وصول کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق نیٹ میٹرنگ کی ادائیگیاں بھی ماہانہ بنیاد پر ہونی چاہییں۔
انیل ممتاز کا کہنا تھا کہ وہ اس سے قبل بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ صارفین کو رقم کے بجائے یونٹس کی بنیاد پر ڈیل کیا جائے یعنی اگر کوئی صارف گرڈ سے جتنے یونٹس لیتا ہے، اتنے ہی یونٹس وہ واپس فراہم کرے۔

شیئر: