انڈیا کی غریب ترین ریاست بہار میں انتخاب کل، نریندر مودی یہ الیکشن ہر صورت کیوں جیتنا چاہتے ہیں؟
انڈیا کی غریب ترین ریاست بہار جمعرات کو ریاستی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالنے جا رہی ہے، اور اس کے تقریباً 13 کروڑ لوگوں کے لیے ایک مسئلہ سب پر بھاری ہے، وہ ہے پیسہ۔
یہی وہ معاملہ ہے جس پر وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھروسہ کر رہی ہے، جو معاشی ترغیبات کے ذریعے ووٹروں کو لبھانے اور ہر صورت میں ریاست میں مکمل اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہاں بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے تو یہ اگلے سال کے انتخابات سے پہلے دیگر اہم ریاستوں میں پارٹی کے امکانات کو ’نئی توانائی‘ دے سکتی ہے۔
ہندو اکثریتی ریاست بہار، جو آبادی کے لحاظ سے ملک کی تیسری سب سے بڑی ریاست ہے (تقریباً میکسیکو کے برابر)، کو ایک اہم سیاسی میدان سمجھا جاتا ہے۔
یہ ہندی بولنے والے شمالی علاقوں میں واحد ریاست ہے جہاں مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی نے کبھی اکیلے حکومت نہیں بنائی ہے۔
راجکماری دیوی نامی ایک گھریلو خاتون کے لیے اپنے تین بچوں کو کھلانا اس بات پر منحصر ہے کہ ان کے شوہر، جو ضلع مظفرپور میں مزدوری کرتے ہیں، روز کتنی اجرت کماتے ہیں۔
جب کام ملتا ہے تو وہ روزانہ تقریباً 400 سے 500 روپے (تقریباً 5 امریکی ڈالر) گھر لاتے ہیں۔
28 سالہ راجکماری نے اپنے سادہ سے ایک کمرے کے گھر، جو کھیتوں کے کنارے واقع ہے، کے باہر کھڑے بتایا ’کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایسے وقت بھی آئے ہیں جب کئی دنوں تک انہیں کام نہیں ملا، تو ہمیں جو تھوڑے بہت پیسے ہوتے ہیں، انھی پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بے روزگاری ہر جگہ ہے۔
پالیسی تھنک ٹینک نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق بہار انڈیا کی سب سے غریب ریاست ہے، جہاں فی کس جی ڈی پی 52,379 انڈین روپے ہے، جو سینٹرل افریقن ریپبلک جیسے ملک سے کچھ ہی بہتر ہے۔
نقد امداد کے وعدے
اس کے باوجود، ریاست نے پچھلی دہائی میں کچھ بہتری ضرور دیکھی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ’کثیر جہتی غربت‘ میں مبتلا لوگوں کا تناسب 2016 میں نصف سے زائد تھا، جو 2021 میں تقریباً ایک تہائی رہ گیا۔
ستمبر میں، نریندر مودی نے 8 ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، جن میں ریلوے اور سڑکوں کی بہتری، زرعی سکیمیں اور ایک نیا ہوائی اڈہ ٹرمینل شامل ہیں۔
انہوں نے 844 ملین ڈالر کا ایک پروگرام بھی متعارف کرایا، جس کے تحت 75 لاکھ خواتین کو 10 ہزار روپے فی کس کی نقد امداد دی جا رہی ہے تاکہ وہ کاروبار شروع کر سکیں۔
بی جے پی، جو وزیراعلیٰ نتیش کمار کی جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ساتھ مل کر قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت کا حصہ ہے، کو اپوزیشن سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
اتوار کو ریاستی دارالحکومت پٹنہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے عوام سے ’این ڈی اے کو آشیرواد دینے‘ کی اپیل کی۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہار میں بی جے پی کی فتح سے پارٹی کو مغربی بنگال اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار پُشپندر کے مطابق، ’یہ انتخاب طے کرے گا کہ آیا بی جے پی اپنی حکومت اکیلے بنا سکتی ہے یا نہیں۔‘
بی جے پی کی کامیابی، ان کے مطابق، پارٹی کو دیگر ریاستوں میں بھی تحریک دے سکتی ہے۔
انتخابات دو مراحل میں ہوں گے: 6 اور 11 نومبر کو، جبکہ نتائج 14 نومبر کو متوقع ہیں۔
’بے روزگار لوگ‘
بی جے پی کا مقابلہ اپوزیشن اتحاد سے ہے، جس کی قیادت راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس پارٹی کر رہی ہیں۔
آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نے گزشتہ ہفتے کہا، ’اب وقت ہے نیا بہار بنانے کا، اور وعدہ کیا کہ ہر خاندان سے ایک فرد کو سرکاری نوکری دی جائے گی۔
یہ اعلان انہوں نے دربھنگہ میں ایک ہیلی کاپٹر ریلی کے دوران کیا، جہاں کچی گلیاں مٹی اور گھاس پھوس کے گھروں کے درمیان سے گزرتی ہیں۔
بی جے پی کے سابق انتخابی حکمت کار پراشانت کشور نے اپنی نئی پارٹی جن سوراج لانچ کی ہے۔
جب وہ ہجوم میں داخل ہوئے تو ان کے حامیوں نے انہیں گیندے کے ہار پہنائے۔
25 سالہ طالب علم مدثر نے کہا، ’گرنے کے بعد ہی انسان دوڑنا یا چلنا سیکھتا ہے۔ اگر اس بار وہ بڑی جیت نہ بھی حاصل کریں تو کوئی بات نہیں۔‘
پُشپندر کے مطابق نتیجہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ عوام کس پارٹی کو اپنے مستقبل کے لیے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ ’بہاری‘ لفظ اب ’بے روزگار لوگوں‘ کا مترادف بن گیا ہے۔
وکاش کمار، 30 سالہ مزدور، دس سال پہلے بہار چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں دیگر ریاستوں میں گئے، مگر اب بھی ان کی آمدنی غیر مستحکم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہاں کارخانے لگ جائیں تو لوگ بھوک سے نہیں مریں گے۔
’وہ پیسہ کمائیں گے، گھر بیٹھیں گے، سکون سے زندگی گزاریں گے، اور پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے۔‘
