انڈیا میں سب سے بڑی اور پہلی مکمل ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے ’موبائل سافٹ ویئر کا ٹرائل‘
انڈیا میں سب سے بڑی اور پہلی مکمل ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے ’موبائل سافٹ ویئر کا ٹرائل‘
جمعہ 7 نومبر 2025 15:39
سنہ 2011 کی مردم شماری کے ساتھ کرائے گئے ذاتوں کے سروے کو آج تک جاری نہیں کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈیا سنہ 2027 میں دنیا کی سب سے بڑی اور پہلی مکمل ڈیجیٹل مردم شماری کی تیاری کے سلسلے میں موبائل سافٹ ویئر سسٹم کو آزمائشی طور پر استعمال کرنے کی مشق شروع کر رہا ہے۔
اگلی مردم شماری میں 2011 کے بعد سے ملک میں آبادی کا پہلا ایسا شماریاتی ڈیٹا اکھٹا کیا جائے گا جس میں آزادی کے بعد پہلی بار لوگوں کی ذاتوں کا اندراج کیا جائے گا - یہ سیاسی طور پر حساس مشق آخری بار 1931 میں برطانوی دورِ حکومت میں کی گئی تھی۔
موبائل سافٹ ویئر کا دس نومبر کو جنوبی ریاست کرناٹک کے منتخب علاقوں میں 20 روزہ ٹرائل شروع ہو رہا ہے۔
اس مشق یا ٹرائل میں کاغذ میں کوائف یا خاندان کی تفصیلات درج کرنے کے روایتی طریقے کے بجائے ایک موبائل ایپ پر ڈیٹا اکٹھا کرنے کے نظام اور خود شماری کے اختیارات کی جانچ کی جائے گی۔
وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس کا مقصد شہری علاقوں سے لے کر محدود موبائل نیٹ ورک کنیکٹیویٹی والے لوگوں تک ڈیجیٹل ایپلیکیشن کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’یہ ٹرائل روایتی کاغذ پر مبنی نظام کی جگہ لے کر انڈیا کی پہلی مکمل ڈیجیٹل مردم شماری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔‘
اس مشق کے لیے ایک بہت بڑا لاجسٹک چیلنج بھی سامنے ہے۔ سنہ 2024 کے عام انتخابات میں ووٹنگ الیکٹرانک مشین کے ذریعے کی گئی تھی، اور پولنگ چھ ہفتوں کے دوران سات مرحلوں میں ہوئی تھی۔
لیکن مردم شماری ایک ہی وقت میں کرائی جانی ہے تاکہ آبادی کو درست طور پر شمار کیا جا سکے اور کسی بھی جگہ دوہری گنتی سے گریز سے بچا جا سکے۔
انڈیا کے ایک بڑے حصے میں مردم شماری کے لیے یکم مارچ 2027 کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔
لیکن اونچائی والے ہمالیائی علاقوں بشمول ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، لداخ، اور جموں و کشمیر کے متنازع علاقے میں مردم شماری یکم اکتوبر 2026 کو برف باری کے آغاز سے پہلے شروع ہو جائے گی۔
ذات انڈیا میں اب بھی سماجی حیثیت کا ایک طاقتور اور فیصلہ کن محور ہے جو وسائل، تعلیم اور مواقع تک رسائی کو تشکیل دیتی ہے۔
اگلے ہفتے جنوبی ریاست کرناٹک کے منتخب علاقوں میں 20 روزہ ٹرائل شروع ہو رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
خیال کیا جاتا ہے کہ انڈیا کے ایک ارب 40 کروڑ لوگوں میں سے دو تہائی سے زیادہ کا تعلق تاریخی طور پر پسماندہ کمیونٹیز سے ہے جو طویل عرصے سے ملکی نظام میں امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
ہزاروں سال پرانی سماجی درجہ بندی یا ذات پات کا نظام ہندوؤں کو سماجی حیثیت کے لحاظ سے تقسیم کرتا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ماضی میں شہریوں کو ذات پات کے حساب سے شمار کرنے کے خیال کی مخالفت کی تھی اور اس کے لیے یہ دلیل دی کہ اس سے سماجی تقسیم مزید گہری ہو جائے گی، لیکن مئی میں ہونے والے نئے سروے کی حمایت کی۔
اس شماریاتی نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹارگٹڈ سماجی انصاف کے پروگراموں کے لیے آبادی کی تفصیلی معلومات بہت اہم ہیں، جن میں سماجی طور پر پسماندہ کمیونٹیز کے لیے یونیورسٹی کی نشستیں اور سرکاری ملازمتیں مختص کرنا شامل ہے۔
یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے انتظامی پیچیدگیوں اور سماجی بدامنی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ذات پات کے اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ کرنے سے گریز کیا۔
سنہ 2011 کی مردم شماری کے ساتھ کرائے گئے ذاتوں کے سروے کو آج تک جاری نہیں کیا گیا جبکہ حکام نے نتائج کو غلط قرار دیا تھا۔