ان مشاہدوں نے ثابت کیا کہ دونوں محفوظ علاقوں میں منفرد حیاتیاتی تنوع موجود ہے، اور ان کی معاشی و سیاحتی اہمیت بھی نمایاں ہے۔
عکاظ کے مطابق ڈاکٹر محمد علی قربان نے وزراء کونسل کی جانب سے سمندری محفوظ علاقوں ’بلیوہولز‘ اور ’راس حاطبہ‘ کو قومی ریزرو کی فہرست میں شامل کیے جانے کی منظوری پر اعلٰی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس اقدام کو ماحولیاتی تحفظ اور سعودی گرین انیشیٹیو و مملکت کے وژن 2030 کے اہداف کے مطابق قرار دیا۔
ریسرچ میں یہ بات واضح ہوئی تھی کہ دونوں محفوظ علاقوں میں منفرد ماحولیاتی تنوع اور اقتصادی و سیاحتی اہمیت کے پہلو پائے جاتے ہیں جو قومی معاشی و سماجی ترقی میں موثر کردار کے حامل ہو سکتے ہیں۔
بحیرۂ احمر سمندری حیاتیات کے لیے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے۔ (فوٹو: این سی ڈبلیو)
ڈاکٹر قربان نے بتایا کہ مرکز عالمی معیار کے مطابق ایک جامع قومی نظام تشکیل دے رہا ہے جس کے تحت مملکت کی 30 فیصد زمینی اور سمندری حدود کو 2030 تک محفوظ قرار دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
واضح رہے ’الثقوب الزرقاء‘ (بلیوہولوز جسے عربی زبان میں عام طور پر عمودی غار بھی کہا جاتا ہے، کافی گہرائی میں ہیں) کا علاقہ سعودی عرب کے مغربی سمت میں مکہ اور جازان ریجن کے درمیان 16500 کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جو اپنی سحرانگیز ارضیاتی بناوٹ اور نایاب حیاتیاتی تنوع کے باعث سائنس دانوں، محققین اور غوطہ خوروں کے لیے بے حد پُرکشش مقام ہے۔ اس علاقے میں 20 سے زائد جزیرے ہیں جو رنگ برنگی مرجانوں، مچھلیوں، ڈولفنز اور سمندری کچھوؤں سے بھرے پڑے ہیں۔
بلیو ہولز قدرتی اور ماحولیاتی نظام ہیں جو حیاتیاتی تنوع اور سمندری حیات سے مالا مال ہیں، جن میں کچھوے، مچھلیاں، سمندری جانور، اور بغیر ریڑھ کی ہڈی کے جاندار شامل ہوتے ہیں۔
جبکہ راس حاطبہ جدہ کے شمال مغرب میں واقع ہے اور 5715 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں مرجان کی چٹانیں، مینگرووز، اور سمندری گھاس بکثرت پائی جاتی ہیں۔
بلیو ہولز قدرتی اور ماحولیاتی نظام ہیں۔ (فوٹو: این سی ڈبلیو)
اس کی دوسری وجۂ شہرت یہ ہے کہ یہاں سبز کچھوے اور ڈوگونگ (سمندری گائے) جیسے نایاب سمندری جانداروں کے لیے قدرتی پناہ گاہیں موجود ہیں۔
اس علاقے میں وہیل، ڈولفن، اور شارک وغیرہ کی موجودگی کے آثار بھی ملے ہیں۔
خیال رہے ان دو نئے ریزورز (محفوظ علاقے) کے اضافے کے بعد مملکت میں محفوظ سمندری علاقوں کا تناسب چھ اعشاریہ پانچ فیصد سے بڑھ کر 16 اعشاریہ ایک فیصد ہو گیا ہے۔