Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیجیٹل تعلیم، ’نواز شریف سکول آف ایمیننس‘ منصوبہ دانش سکول سے کتنا مختلف؟

دانش سکول کا منصوبہ سنہ 2010 میں پنجاب کے چند بڑے شہروں میں شروع کیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: ایکس)
پاکستان میں پنجاب حکومت نے حال ہی میں صوبے بھر کی تمام تحصیلوں کے لیے ’نواز شریف سکول آف ایمیننس‘ تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ہر تحصیل یعنی پنجاب کی کل 165 تحصیلوں میں اعلٰی معیار کی تعلیم دی جائے گی جس میں آرٹیفیشل انٹیلجینس سرفہرست ہے۔
حکومت نے اس منصوبے کے لیے دلچسپی رکھنے والے نجی اداروں سے 15 نومبر تک درخواستیں طلب کر رکھی ہیں۔ تاہم سوال اٹھتا ہے کہ پنجاب حکومت کا ’نواز شریف سکول آف ایمیننس‘ منصوبہ اصل میں ہے کیا اور یہ پنجاب کے سابق وزیراعلٰی شہباز شریف کے دانش سکول منصوبے سے کتنا مختلف ہے؟

’نواز شریف سکول آف ایمیننس‘ کیا ہے؟

تصور کیجیے ایک ایسا سکول جہاں کلاس رومز جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور ہوں، سائنس اور ریاضی کے مسائل جدید سکرینوں پر حل ہوتے ہوں اور بچے کمپیوٹر پر کوڈنگ سیکھ رہے ہوں اور ہو بھی یہ سب مفت۔ کچھ ایسا ہی دعویٰ پنجاب حکومت ’نواز شریف سکول آف ایمیننس‘ کے بارے میں کر رہی ہے۔ ’ایمیننس‘ کا مطلب ہے برتری یا فضیلت یعنی یہ عام سکولوں سے کئی درجے بلند ہوں گے۔ ان کا بنیادی مقصد ہے تعلیم میں شہری اور دیہی فرق کو ختم کرنا، لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا اور بچوں کو ایسے ہنر سکھانا جو آج کی دنیا میں کامیابی کی ضمانت دیں جیسے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میتھ، تنقیدی سوچ، انگریزی، اور ڈیجیٹل ہنر۔
یہ سکول عام سرکاری سکولوں سے کتنے مختلف ہوں گے؟ وزیر اطلاعات پنجاب اعظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ ’عام سرکاری سکولوں میں اکثر بنیادی سہولیات کی کمی ہوتی ہے جیسے اچھی لائبریری، کمپیوٹر لیب یا تربیت یافتہ اساتذہ۔ لیکن یہاں ہر سکول میں جدید کلاس رومز، انٹرنیٹ، سائنس لیبز اور کھیل کا میدان ہو گا۔‘
’تدریس کا طریقہ بھی جدید ہو گا، اور نصاب میں عملی سرگرمیاں شامل ہوں گی۔ بچے نہ صرف کتابی علم حاصل کریں گے، بلکہ ایسے ہنر سیکھیں گے جو انہیں نوکریوں اور اعلٰی تعلیم کے لیے تیار کریں۔ یہ سکول ایک لاکھ سے زائد بچوں کو پہلے مرحلے میں فائدہ پہنچائیں گے اور اس سے نوکریاں بھی پیدا ہوں گی۔‘

یہ سکول کیسے چلیں گے؟

یہ سکول نہ خالص سرکاری ہوں گے نہ خالص نجی بلکہ ایک ہائبرڈ ماڈل پر چلیں گے جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ نجی تعلیمی ادارے انہیں چلائیں گے، جبکہ پنجاب حکومت ان سکولوں کو براہ راست مالی مدد دے گی۔ دلچسپی رکھنے والے نجی سکول پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (پیف) کے پورٹل پر درخواست دیں گے۔ درخواست میں سکول کی تفصیلات، اساتذہ کی قابلیت، عمارت کی تصاویر اور دیگر دستاویزات شامل ہوں گی۔
پیف ان کا معائنہ کرے گی اور منظور شدہ سکولوں کو سنہ 2026 کی ابتدا سے طلبا کے داخلے شروع کرنے کی اجازت مل جائے گی۔
فنڈنگ براہ راست پنجاب حکومت کی طرف سے ہوگی اور پیف کے ذریعے ہر طالب علم کے لیے حکومت ماہانہ چار ہزار روپے کی امداد دے گی، جو ٹیوشن فیس، کتابیں اور بنیادی سامان پر خرچ ہو گی۔ بچوں کی فیس نہیں ہو گی۔ ابتدائی تخمینے کے مطابق ابتدائی طور پر ایک برس میں اس پراجیکٹ پر سات ارب روپے لاگت آئے گی۔

یہ منصوبہ دانش سکول سسٹم سے کتنا مختلف ہے؟

اب بات کریں گے دانش سکول کی جو اس وقت کے وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف کا سب سے پسندیدہ منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ سنہ 2010 میں پنجاب کے چند بڑے شہروں میں شروع کیا گیا تھا۔ دانش سکول بنیادی طور پر بورڈنگ سکول ہیں جہاں بچوں اور بچیوں دونوں کو چھٹی جماعت سے ہائر سکینڈری تک رکھا جاتا ہے اور صرف ان بچوں کو داخلہ ملتا ہے جو ٹیسٹ پاس کر لیں۔
پنجاب میں تقریباً 11 ہزار بچے دانش سکولوں میں پڑھتے ہیں یہ مکمل طور پر سرکاری سکول ہیں یعنی حکومت ان کو براہ راست چلاتی ہے۔ فیس مفت ہے لیکن 10 فیصد طلبا سیلف فنانس پر فیس ادا کرتے ہیں۔
سالانہ خرچ کی بات کریں تو سنہ 2025 میں دانش سکولوں کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں وفاق اور پنجاب کا 50 50 فیصد شئیر ہے اور فی طالب علم ماہانہ تقریباً 15 ہزار روپے خرچ ہوتا ہے۔

 

شیئر: