پارٹی سے پابندی نہ ہٹی تو الیکشن نہیں بلکہ تشدد ہو گا: حسینہ واجد کے بیٹے کی دھمکی
پارٹی سے پابندی نہ ہٹی تو الیکشن نہیں بلکہ تشدد ہو گا: حسینہ واجد کے بیٹے کی دھمکی
پیر 17 نومبر 2025 7:40
بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے اور مشیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوامی لیگ پر سے پابندی نہ ہٹائی گئی تو عوامی لیگ کے حامی فروری میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے اور احتجاج تشدد کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سجیب واجد کا یہ بیان ڈھاکہ کی عدالت کے فیصلے سے ایک روز قبل سامنے آیا جس میں 78 سالہ حسینہ واجد کو 2024 میں طلبہ کے مظاہروں پر کریک ڈاؤن اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں عدم حاضری پر سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔
دوسری جانب حسینہ واجد الزامات کو سیاسی محرکات قرار دیتے ہوئے ان کو ماننے سے انکار کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پچھلے برس 15 جولائی سے پانچ اگست کے درمیان حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں 1400افراد ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
ان واقعات کو بنگلہ کی 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد اب تک کے بدترین سیاسی تشدد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
17 کروڑ سے زیادہ کی آبادی رکھنے والا بنگلہ دیش دنیا کے سب سے بڑے گارمنٹس کے ایکسپورٹرز میں سے ایک ہے جو بڑے عالمی برانڈز کو سامان سپلائی کرتا ہے۔ پچھلے برس ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے اس صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔
’سزائے موت سنائے جانے کا امکان ہے‘
حسینہ واجد اگست 2024 میں بنگلہ دیش سے فرار ہو کر انڈیا چلی گئی تھیں اور اب دہلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
واشنگٹن میں مقیم سجیب واجب کا کہنا ہے کہ ’انڈیا ان کو مکمل تحفظ فراہم کر رہا ہے اور ان کو سربراہ مملکت کے طور پر ٹریٹ کر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہمیں معلوم ہے کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے، وہ اس کو ٹیلی ویژن پر نشر کر رہے ہیں۔ وہ ان کو مجرمہ قرار دینے جا رہے ہیں اور شاید موت کی سزا بھی سنائیں گے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وہ میری والدہ کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں، وہ انڈیا میں ہیں جہاں ان کو بھرپور تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔‘
اگست 2024 میں بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
نوبیل انعام یافتہ محمد یونس میں کام کرنے والے عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے ’مقدمے کے سیاسی محرکات‘ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے شفاف طور پر کام کیا اور مبصرین کو اس کی دستاویز شائع کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔
حسینہ واجد نے اکتوبر میں روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سکیورٹی میں رہتے ہوئے دہلی میں آزادنہ طور پر نقل و حرکت سکتی ہیں۔
ان کے والدین اور تین بھائی 1975 میں ہونے والی فوجی بغاورت کے دوران مارے گئے تھے اور اس وقت (حسینہ واجد) اور ان کی بہن ملک سے باہر تھیں۔
سجیب واجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک اپیل نہیں کریں گے جب تک منتخب حکومت جمہوری طور پر عوامی لیگ کی شمولیت سے حکومت نہیں سنبھال لیتی۔
اس پارٹی کی رجسٹریشن مئی میں اس وقت معطل کر دی گئی تھی جب عبوری حکومت نے قومی سلامتی کو لاحق خطرات اور سینیئر قیادت پر جنگی جرائم کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اتوار کو کئی دیسی ساختہ بم دھماکے ہوئے (فوٹو: اے پی)
سجیب واجد کے مطابق ’ہم عوامی لیگ کے بغیر الیکشن نہیں ہونے دیں گے، ہمارا احتجاج مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے، جب تک عالمی برادری کچھ نہیں کرتی ہمیں جو بھی کرنا پڑے ہم کریں گے۔ انتخاب سے قبل تشدد اور تصادم ہو سکتا ہے۔‘
دوسری جانب حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ پر سے پابندی ہٹائے جانے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے۔
ترجمان کے مطابق ’عبوری حکومت کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی، خصوصاً جلاوطن قیادت کی جانب سے کیے گئے اقدام کو انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت سمجھتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فی الوقت عوامی لیگ کے لیے بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے اپنے دور میں کیے گئے انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم پر پشیمانی اور احتسابی عمل سے انکار کر رہی ہے جن میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کے تحت مقدمہ بھی شامل ہے۔‘
خیال رہے آج حسینہ واجد کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے جس سے قبل بنگلہ دیش میں صورت حال میں کشیدگی بڑھتی دیکھی گئی اور اتوار کو ڈھاکہ میں کئی دیسی ساختہ بم دھماکے ہوئے۔