ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی نئی ’وفاقی آئینی عدالت‘ کے لیے مستقل عمارت کا تعین اس وقت اسلام آباد کی عدالتی برادری اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک بڑے انتظامی اور ادارہ جاتی چیلنج کے طور پر سامنے آ رہا ہے.
ترمیم کے نفاذ کے بعد حکومت نے سب سے پہلے وفاقی شرعی عدالت کی موجودہ عمارت پر نظر رکھی تاکہ نئی عدالت کو اسی جگہ منتقل کر دیا جائے۔
تاہم وفاقی شرعی عدالت کے ججز نے اس تجویز سے متعلق یہ موقف اختیار کرتے ہوئے معذرت کر لی کہ ان کی اپنی عدالتی ذمہ داریاں اور مقدمات کا حجم پہلے ہی اس عمارت کے حساب سے زائد ہیں۔
مزید پڑھیں
-
جسٹس امین الدین خان وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس مقررNode ID: 897187
-
جب سپریم کورٹ کے جج کو استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑاNode ID: 897227
اس انکار کے بعد حکومت نے ’وفاقی آئینی عدالت‘ کے لیے عارضی طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی نئی عمارت کا انتخاب کیا لیکن یہ فیصلہ فوری طور پر ایک نئے تنازع کا باعث بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
حکام کے مطابق حکومت کی درخواست کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے وفاقی آئینی عدالت کی پہلی سماعت کے لیے کمرۂ عدالت نمبر ایک فراہم کرنے سے معذرت کر لی جس کے بعد پہلی سماعت کمرہ نمبر دو میں منعقد کرنا پڑی۔
اس تمام معاملے نے وکلا برادری کو بھی دو واضح گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ موجودہ عمارت میں قائم ہائی کورٹ کی منتقلی کسی صورت قبول نہیں اور وفاقی آئینی عدالت کے لیے کسی دوسری جگہ کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اس رائے کی حمایت کرتی ہے کہ ہائی کورٹ کو واپس اس کی پرانی عمارت جی ٹین میں منتقل کر دیا جائے کیونکہ زیادہ تر وکلا ضلع کچہری میں موجود ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک ہائی کورٹ کا انہی عدالتوں کے قریب ہونا سائلین اور وکلا دونوں کے لیے زیادہ سہولت کا باعث ہو گا۔
وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ فیملی کورٹس اور مختلف خصوصی عدالتیں جی 11 میں موجود ہونے کے باعث عدالتی امور میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔

صورتحال کو پیچیدہ بنانے والا اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت کے ساتھ تعمیر ہونے والا لائرز کمپلیکس کئی برسوں کی جدوجہد کے بعد حکومت نے فراہم کیا ہے اور وہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نہیں چاہتی کہ جس سہولت کے لیے انہوں نے برسوں مہم چلائی، وہ کسی دوسری بار کے حصے میں چلی جائے اور انہیں دوبارہ جی 10 کی پرانی عمارت میں منتقل ہونا پڑے۔
اسی پس منظر میں وزارتِ قانون میں اس وقت مشاورت جاری ہے جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ اور مختلف بار ایسوسی ایشنز کے نمائندگان کو بلایا جا رہا ہے تاکہ ممکنہ حل تلاش کیا جا سکے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وکلا برادری کے اندر اس معاملے پر بے چینی موجود ہونے کے باوجود عمومی طور پر خاموشی دیکھی جا رہی ہے اور وکلا اس معاملے پر آن دی ریکارڈ بات کرنے گریزاں ہیں۔
یہاں تک کہ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرنے والے سیکرٹری بار ایسوسی ایشن منظور ججہ بھی وزارت قانون میں اجلاس کا کہہ کر خاموش ہو گئے کہ اس اجلاس کے بعد ہی کوئی موقف دینے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
وکلا رہنماؤں نے صرف ایک پریس کانفرنس اور پریس ریلیز کے ذریعے اپنی پوزیشن واضح کی ہے، جس کی بڑی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ کسی بھی ایسے بیان یا دباؤ سے گریز کرنا چاہتے ہیں جسے بنیاد بنا کر حکومت فوری طور پر کوئی فیصلہ کر لے۔
اس کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا کی اکثریت اس امکان کو سختی سے رد کرتی ہے کہ ہائی کورٹ کو دوبارہ جی 10 کی عمارت میں منتقل کیا جائے۔

وفاقی حکومت اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارر اور اٹارنی جنرل ججز اور وکلا کو اس بات پر قائل کرنے میں مصروف ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو عارضی طور پر ہی سہی لیکن جی 10 میں منتقل کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں اسلام اباد ہائی کورٹ کی انتظامیہ ججز اور وزارت قانون کے اعلیٰ حکام کے درمیان مسلسل مشاورت جاری ہے۔
دوسری جانب وزیر قانون نے بار ایسوسی ایشنز کے نمائندگان کو وزارت قانون میں مدعو کر رکھا ہے جہاں ان کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے قیام کے بعد کئی دہائیوں تک یہاں کی عدلیہ اپنی مستقل عمارت سے محروم رہی اور آبپارہ کے علاقے میں کرائے کی عمارتوں میں ماتحت عدالتوں کا قیام عارضی طور پر عمل میں آیا۔
اس دور میں کسی بھی عدالت کے پاس مستقل چیمبرز تھے، نہ ریکارڈ سنبھالنے کا مناسب نظام اور نہ ہی مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے ضروری انفرااسٹرکچر تھا۔
بعدازاں ایف ایٹ میں کچہری قائم کی گئی جو شہر کے اندر آ جانے کی وجہ سے رش اور سکیورٹی خطرات سے دوچار رہتی تھی جسے کچھ عرصہ قبل جی 11 منتقل کر دیا گیا۔
سنہ 2010 میں ایک آئینی ایکٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے لیے جی 10 میں عمارت بنائی گئی جس کا افتتاح اس وقت کے وزیرقانون بابر اعوان نے کیا تھا۔
ہائی کورٹ 14 برس تک وہاں موجود رہی جسے گزشتہ برس شاہراہ دستور پر واقع نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔

موجودہ ہائی کورٹ کی عمارت نہ صرف دیگر حساس وفاقی اداروں کے قریب ہے بلکہ اس کی تعمیر اور حصول میں طویل قانونی عمل، بار کی مسلسل مہم اور بعض ججز کی فعال کوششیں شامل رہیں جن میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کردار اہم سمجھا جاتا ہے۔
اسی جگہ کے ساتھ لائرز کمپلیکس، سہولت مرکز اور عدالتوں کے توسیعی منصوبے بھی چل رہے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام آباد ہائی کورٹ کی پرانی عمارت جی10 کے علاقے میں واقع تھی جو دراصل ایک محدود اور کم گنجائش والی عمارت تھی۔
اس عمارت کے قریب ضلع کچہری، فیملی کورٹس اور خصوصی عدالتیں موجود ہونے کی وجہ سے اسے عدالتی سرگرمیوں کا مرکز ضرور سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے محدود انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہائی کورٹ جیسی اعلیٰ عدالت کے لیے یہ عمارت مستقل حل کے طور پر ناکافی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ شاہراہِ دستور منتقل ہوئی تو اسے نہ صرف شہر کی عدلیہ کے وقار میں اضافہ سمجھا گیا بلکہ اسے آئینی عدالت کے لیے ایک موزوں مقام کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔












