Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کا جائزہ

جب سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ سے اپنی تاریخی ملاقات میں سعودی۔امریکی تعلقات کی بنیاد رکھی، تو ان کا مقصد دو خودمختار اور دوست ملکوں کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا تھا جو باہمی مفاد اور مساوات پر مبنی ہوں۔
اس وقت نوزائیدہ سعودی ریاست کے پاس وسائل کم تھے — اس کی دولت، جغرافیائی اہمیت اور تیل کی صورت میں نظر آنے والے مستقبل کے اقتصادی مواقع ہی اس کا سرمایہ تھے، لیکن بانیِ مملکت نے اپنی سفارتی بصیرت اور اُبھرتے ہوئے عالمی نظام میں امریکہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تیل کی تلاش کے لیے رعایتیں دیں۔
یوں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مضبوط اور مسلسل فائدہ مند تعلق کا آغاز ہوا۔
بعد میں شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد اور شاہ عبداللہ نے بھی ان تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا، چاہے 1973 کی تیل پابندی ہو یا 11 ستمبر 2001 کے واقعات — ان عارضی چیلنجز کے باوجود سعودی عرب نے ہمیشہ برابری، باہمی مفادات اور احترام کی بنیاد پر تعلقات کو برقرار رکھا۔
مجھے اب بھی یاد ہے (اپنی سابقہ وزارتِ خارجہ کی ذمہ داریوں کی وجہ سے) کہ جب سعودی عرب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت کے لیے مذاکرات کر رہا تھا، تو صرف امریکہ وہ ملک تھا جس کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار تھے۔
امریکہ نہ تو سعودی عرب کو ترقی پذیر ملک کی حیثیت دینا چاہتا تھا، نہ ہی شرعی طور پر ممنوع مصنوعات پر مستقل پابندی کی اجازت دے رہا تھا، جبکہ بعض مصنوعات پر ہزار فیصد سے زیادہ ٹیرف لگانے کی تجویز بھی دے رہا تھا۔
جب بات بالکل رک گئی تو اس وقت کے ولی عہد شاہ عبداللہ نے صدر جارج بش کو ایک واضح پیغام بھیجا جس میں انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب امریکہ کو بڑے معاشی مواقع فراہم کرتا ہے اور سعودی عرب کی اسلامی شناخت کو مدنظر رکھنا کیوں ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ بعض مصنوعات کو ملک میں داخل کرنا ممکن نہیں ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی موقف دونوں ملکوں کے تعلقات پر کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اس کے ایک ماہ کے اندر 2005 میں، سعودی عرب کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کی رُکنیت حاصل ہو گئی۔
آج، شاہ سلمان اور وژن 2030 کے معمار ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب صرف ایک دہائی میں سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی سطح پر علاقائی و عالمی طاقت بن چکا ہے۔
دنیا کے بیشتر اہم رہنماؤں نے ریاض کا دورہ کیا ہے اور شہر میں خلیجی، عرب، اسلامی اور بین الاقوامی سربراہی اجلاسوں کی بے مثال میزبانی کی گئی ہے۔ سعودی عرب نے ہر میدان میں ہر گزرتے سال میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
فلسطین کے مسئلے پر سعودی کاوشیں بھی قابلِ ذکر ہیں۔ سعودی عرب نے عالمی برادری خصوصاً امریکہ کو غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کی ضرورت پر قائل کرنے کے لیے بھرپور سفارت کاری کی۔
پیر کے روز منظور ہونے والی سلامتی کونسل کی قرارداد 2803 انہی کوششوں کا نتیجہ ہے جو 1967 کی قرارداد 242 کے بعد فلسطینی مسئلے کی سب سے اہم پیش رفت ہے۔ سعودی کوششوں سے اس میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق کلیدی نکات شامل کیے گئے۔
رواں ہفتے ولی عہد کا امریکہ کا تاریخی دورہ دو طرفہ تعلقات کی نئی بلندیوں کی علامت ہے۔ سعودی عرب کو ایک بڑے نان نیٹو اتحادی اور قابلِ اعتماد سٹریٹجک پارٹنر کا درجہ ملا۔
وائٹ ہاؤس میں ولی عہد کا بےمثال استقبال، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعریف، ان کے اعزاز میں سرکاری عشائیہ، معاہدوں پر دستخط، مصنوعی ذہانت میں شراکت داری، سرمایہ کاری فورم اور 300 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلانات، یہ سب کچھ اسی تعلق کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان تمام کامیابیوں کے باوجود سعودی عرب اپنے عرب اور اسلامی ورثے کو نہیں بھولا۔ بات چیت میں فلسطین، لبنان، شام اور سوڈان جیسے اہم علاقائی مسائل شامل تھے۔ حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے بھی اعتراف کیا کہ سوڈان میں امن کے لیے ان کی براہِ راست مداخلت کی درخواست ولی عہد نے کی تھی، جب کہ اس سے قبل شام پر عائد پابندیاں بھی ولی عہد کی درخواست پر ہٹائی گئیں۔
یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ شاہ سلمان اور ولی عہد کی قیادت میں سعودی عرب کا مستقبل روشن اور اُمید افزا ہے، اور یہ عرب و اسلامی دنیا کا طاقتور مرکز اور جی20 کے اہم ترین اراکین میں سے ایک بنے گا۔
فیصل تطراد سعودی عرب کے سابق سفیر ہیں جنہوں نے جاپان، انڈیا، بیلجیئم، لکسمبرگ، عرب لیگ، یورپی یونین، جنیوا میں اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں بطور سفیر خدمات انجام دی ہیں۔

 

شیئر: