عزہ میں امریکی حمایت یافتہ متنازع امدادی ادارہ جی ایچ ایف بند
غزہ کو امداد فراہم کرنے والی ایک متنازع کمپنی، جسے امریکہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی، نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ اپنا کام بند کر رہی ہے۔
غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) نے چھ ہفتے قبل غزہ میں امریکی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد اپنے امداد کی تقسیم کے مراکز پہلے ہی بند کر دیے تھے۔ پیر کو اس نے اعلان کیا کہ وہ مستقل طور پر اپنا آپریشن ختم کر رہی ہے اور دعویٰ کیا کہ اس نے اپنا مشن مکمل کر لیا ہے۔
جی ایچ ایف کے ڈائریکٹر جان ایکری نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم غزہ کے لوگوں تک امداد پہنچانے کا ایک بہتر طریقہ دکھانے کے اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘
جی ایچ ایف کے آپریشن اپنے مختصر عرصے کے دوران رازداری میں لپٹے رہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی حمایت سے قائم کی گئی یہ تنظیم اقوام متحدہ کے متبادل کے طور پر شروع کی گئی تھی، لیکن اس نے کبھی اپنے مالی ذرائع ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی ان مسلح کنٹریکٹرز کے بارے میں بتایا جو مراکز چلاتے تھے۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ امداد کو حماس کی مداخلت کے بغیر غزہ تک پہنچایا جائے۔
فلسطینیوں، امدادی کارکنوں اور صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس نظام نے امداد کے متلاشی افراد کو اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے پر مجبور کیا، کیونکہ انہیں ان مقامات تک پہنچنے کے لیے اسرائیلی فوجیوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا، جو ان جگہوں کی حفاظت کرتے تھے۔
عینی شاہدین اور سوشل میڈیا پر شائع ویڈیوز کے مطابق فوجیوں نے اکثر فائرنگ کی، جس سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ صرف ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے وارننگ شاٹس فائر کرتی تھی یا جب اس کے فوجی خطرے میں ہوتے تھے۔
جی ایچ ایف نے کہا کہ امداد کے مراکز کے اندر کوئی تشدد نہیں ہوا، تاہم اس نے اس ممکنہ خطرے کو تسلیم کیا جس کا لوگوں کو پیدل سفر کرتے ہوئے سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن مراکز پر کام کرنے والے کنٹریکٹرز نے، جن کے دعوؤں کی ویڈیو شواہد بھی تائید کرتے ہیں، کہا کہ امریکی سکیورٹی گارڈ بھوک سے پریشان فلسطینیوں پر فائرنگ اور سٹن گرینیڈ استعمال کرتے تھے۔
ایکری نے کہا کہ جی ایچ ایف اپنا کام اسرائیل میں غزہ جنگ بندی کی نگرانی کرنے والے امریکی قیادت کے مرکز، یعنی سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر کے حوالے کر دے گی۔
انہوں نے کہا کہ جی ایچ ایف گزشتہ کئی ہفتوں سے سی ایم سی سی اور بین الاقوامی تنظیموں سے آئندہ کے راستے کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے، اور یہ واضح ہے کہ وہ جی ایچ ایف کے آزمودہ ماڈل کو اپنا کر اسے وسعت دیں گے۔
جی ایچ ایف نے مئی کے آخر میں اس وقت کام شروع کیا جب اسرائیل کی جانب سے تین مہینوں سے غزہ کے لیے خوراک کی ترسیل روکنے پر آبادی قحط کے دہانے پر پہنچ گئی تھی۔
اسرائیل چاہتا تھا کہ یہ نجی کنٹریکٹر گروپ اقوام متحدہ کے فوڈ ڈسٹری بیوشن نظام کی جگہ لے، کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ حماس امداد کا بڑا حصہ لے جاتی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔
اقوام متحدہ نے جی ایچ ایف کی تشکیل کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس نظام نے خوراک کی تقسیم پر اسرائیل کو کنٹرول دے دیا اور اس سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ہو سکتی ہے۔
جنگ کے دوران، اقوام متحدہ نے دیگر امدادی گروہوں کے ساتھ مل کر غزہ بھر میں سینکڑوں مراکز پر خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروریات کی بڑے پیمانے پر تقسیم کی۔
