جکارتہ میں کتے اور بلی کے گوشت کی فروخت پر پابندی، چھ ماہ کی مہلت کا اعلان
جمعرات 27 نومبر 2025 10:04
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں کتے اور بلی سمیت ریبیز پھیلانے والے جانوروں کے گوشت کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یہ پابندی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک بھر میں اس روایت کے خلاف مہم نے گزشتہ چند برسوں میں شدت اختیار کر گئی ہے، تاہم کچھ مقامی برادریوں میں اب بھی اس کا استعمال رائج ہے۔
جکارتہ کے ایک خالی سٹال پر بیٹھے 36 سالہ الفندو ہوتا گول نے پابندی کے اعلان سے قبل اے ایف پی سے گفتگو میں کتے کے گوشت کو کھانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ صرف منفی پہلو نہ دیکھیں، اس کے فائدے بھی ہیں۔‘
اگرچہ انڈونیشیا کی مسلم اکثریت کتے کا گوشت استعمال نہیں کرتی، لیکن چند کمیونٹیز میں اسے روایت اور بعض اوقات ڈینگی کے علاج کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ 43 سالہ سنگگل سگالا نے بھی اسے ’روایت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کاروبار کو ’اچانک ختم نہیں کیا جا سکتا‘۔
جکارتہ کے گورنر کی جانب سے جاری اعلان کے مطابق پابندی ریبیز منتقل کرنے والے تمام جانوروں، جن میں چمگادڑ، بندر اور سیوٹ شامل ہیں، کی تجارتی فروخت پر لاگو ہوگی۔
جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم گروہ ڈاگ میٹ فری انڈونیشیا نے اس فیصلے کو ’جانوروں کی فلاح کے لیے جکارتہ کی حقیقی کوشش‘ قرار دیا۔ تنظیم کی 2021 کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق 93 فیصد انڈونیشین شہری کتے کے گوشت کے کاروبار کے خلاف ہیں۔
تاہم اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2022 میں زیادہ تر مغربی جاوا سے پکڑے گئے تقریباً 9,٥٠٠ آوارہ کتے جکارتہ لائے گئے۔ قومی سطح پر اس تجارت کے اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
جکارتہ 2004 سے ریبیز فری صوبوں میں شامل ہے۔ شہر کے فوڈ ریزیلینسی اور ایگری کلچر ایجنسی کے سربراہ حسبودونگ سِدابالوک کا کہنا ہے کہ نئی پابندی ’اس حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش‘ ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ مارکیٹوں اور ریستورانوں میں اب کھلے عام کتے کا گوشت فروخت نہیں ہوتا، لیکن اب بھی 19 ریستوران اور کم از کم دو ذبح خانے سرگرم ہیں۔
حکام کے مطابق پابندی چھ ماہ کی آگاہی مہم کے بعد نافذ ہوگی، جس کے بعد خلاف ورزی پر وارننگ، جرمانے اور لائسنس کی منسوخی جیسے اقدامات کیے جائیں گے۔
پابندی کے بعد تجارت مزید خفیہ ہونے کا امکان ہے۔ کچھ صارفین کے مطابق گوشت پہلے ہی ’منشیات کی طرح‘ خفیہ طریقے سے فروخت ہو رہا ہے اور اس کی قیمت گائے کے گوشت سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ دوسری جانب پابندی کے بعد ان جانوروں کے مستقبل سے متعلق کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں، جس پر بعض افراد کو تشویش ہے۔