ایک فلٹریشن پلانٹ نے لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کا نقشہ کیسے بدلا؟
ایک فلٹریشن پلانٹ نے لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کا نقشہ کیسے بدلا؟
منگل 25 نومبر 2025 13:19
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چونگی امر سدھو کے کئی علاقے باقی شہر سے مختلف ہیں۔ یہاں متعدد ایسے مقامات ہیں جہاں سیوریج کا پانی سڑکوں پر بہہ رہا ہوتا ہے جبکہ پینے کا صاف ملنا بھی غنیمت ہے۔
صاف پانی کی بجائے گٹر کا پانی نلکوں میں شامل ہو کر گھروں تک آتا ہے جس کے باعث بچوں کی نشوونما رُک جاتی ہے، خواتین خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں اور بیماریاں معمول بن چکی ہیں۔
لوگوں کی اسی بے بسی کو ایک تحقیق کا حصہ بنایا گیا۔ یہ تحقیق سوشل میڈیا پر جب خازین حسن منشا نامی 16 سالہ طالب علم کی نظروں سے گزری تو انہوں نے وہ کر دکھایا جو بظاہر سرکاری ادارے برسوں میں نہ کر سکے۔
ایکشن ریسرچ کلیکٹیو (اے آر سی) کی جانب سے چونگی امر سدھو میں لوگوں کے خون کے نمونوں کی بنیاد پر تفصیلی تحقیق کی گئی۔ آلودہ پانی میں لیڈ(دھات) اور سیوریج کی آمیزش نے بچوں کی جسمانی و ذہنی نشوونما تک کو متاثر کیا تھا۔
ایکشن ریسرچ کلیکٹیو کی محقق پروفیسر نوشین زیدی نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چونگی امر سدھو ان آٹھ علاقوں میں سب سے زیادہ متاثر ہے جن پر ہم نے تحقیق کی۔ یہاں پانی میں گٹر کا پانی شامل ہو کر گھروں میں آتا ہے۔ لوگوں میں خون کی کمی اور بچوں میں نشوونما رُکنے کے کیسز بہت زیادہ ہیں کیونکہ بار بار انفیکشن کی وجہ سے جسم غذائیت جذب نہیں کر پاتا۔‘
یہ تحقیق انسٹاگرام پر لاہور کے ایک طالبعلم خازین حسن منشا کی نظر سے گزری۔ خازین کو ڈریم تھری نامی ادارے میں صاف پانی پر ایک پراجیکٹ دیا گیا تھا جسے وہ کاغذ کی حد تک محدود رکھنے کی بجائے کچھ عملی کرنا چاہتے تھے۔ ڈریم تھری نامی اس ادارے میں وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
خازین حسن منشا کے والدین بزنس سے وابستہ ہیں اور وہ خود پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے یہ تحقیق پڑھنے کے بعد چونگی کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک منفرد خیال پر کام کیا۔ انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں سے کچرا اور پلاسٹک جمع کیا جسے انہوں نے ریسائیکلنگ کمپنیوں کو فروخت کر کے پیسے جمع کیے۔
اس حوالے سے خازین کہتے ہیں کہ ‘مجھے لگا کہ اس مسئلے کو حل کرنا میری بھی ذمہ داری ہے۔ میں نے کچرا بیچ کر پیسے جمع کیے اور سوچا کہ اگر ایک فلٹر بھی لگ جائے تو کم از کم چند سو لوگ تو صاف پانی پی سکیں گے۔‘
چونگی امر سدھو کے رہائشی برسوں سے صاف پانی کے لیے کئی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے تھے۔ محلے کے بزرگ اور مسجد کمیٹی کے سربراہ حاجی عبدالستار کے مطابق اس علاقے میں صاف پانی کبھی کسی نعمت سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔
وہ صاف پانی کے لیے اہل محلہ کی تگ و دو کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’پورا محلہ کئی کلومیٹر دور پانی لینے جاتا تھا۔ یہاں نلکوں میں پینے کا صاف پانی آتا ہی نہیں تھا۔ اب اس بچے نے فلٹر لگایا ہے تو خواتین رات میں پانی بھر کر لے جاتی ہیں اور دن بھر صاف پانی مل جاتا ہے۔ یہاں زیادہ تر غریب لوگ رہتے ہیں جو بور تک نہیں کروا سکتے تو یہ فلٹریشن پلانٹ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔‘
خازین حسن منشا نے وہ کر دکھایا جو بظاہر سرکاری ادارے برسوں میں نہ کر سکے: فوٹو اردو نیوز
خازین حسن نے کچرا بیچ کر ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ خریدا اور اسے ایک مسجد میں نصب کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص بلا امتیاز اس تک رسائی حاصل کر سکے۔ اس علاقے میں متحرک رہنے والے سیاسی و سماجی کارکن مزمل کاکڑ پچھلے آٹھ برس سے یہاں کے حالات دیکھ رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں کے مسائل صرف پانی تک محدود نہیں بلکہ گیس، بجلی، کھلے نالے اور حادثات عام ہیں۔‘
ان کے مطابق ان میں سے پانی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ یہ لاہور کا سب سے گنجان آباد علاقہ ہے جہاں فیکٹریوں میں کام کرنے والا طبقہ رہتا ہے۔ پانی میں لیڈ اور سیوریج کی وجہ سے بچوں کی ذہنی نشوونما رُک رہی تھی اور خواتین میں خون کی کمی عام تھی۔ ہم نے کئی بار مسئلہ اٹھایا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ پھر اس بچے نے آ کر کچرا بیچا اور پلانٹ لگا دیا۔ مسجد میں فلٹریشن پلانٹ لگانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ ایک نیوٹرل جگہ ہے جہاں کسی تفریق کا مسئلہ نہیں۔‘
مقامی رہائشی حسن منور کے مطابق یہاں کے حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ بچے، بوڑھے اور خواتین صبح سے شام تک پانی بھرنے کی مشقت میں لگے رہتے۔
ان کے بقول ’خازین جب یہاں آئے اور پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے تو پہلی بار لوگوں نے محسوس کیا کہ شاید اس مسئلے کا حل بھی یہیں کہیں موجود ہے۔ اب امید ہے کہ بیماریاں کم ہوں گی اور زندگی آسان ہو گی۔‘
چونگی امر سدھو کے رہائشی برسوں سے صاف پانی کے لیے کئی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے تھے: فوٹو اردو نیوز
پروفیسر نوشین زیدی اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ یہ مسئلہ پورے لاہور کا نہیں بلکہ چند مخصوص علاقوں کا ہے جنہیں مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔‘
وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ایک ہی واٹر بورڈ پورے لاہور میں پانی فراہم کرتا ہے لیکن آلودگی زیر زمین پانی اور خراب انفراسٹرکچر کے باعث کچھ علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اب اگر لوگ مستقل صاف پانی استعمال کریں تو چند ماہ میں واضح بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔‘
’اس فلٹریشن پلانٹ کا پانی لوگ اگر پینے کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے کے لیے بھی استعمال کریں تو نتائج بہت مثبت ہوں گے۔‘
مزمل کاکڑ کے مطابق خازین اب علاقے کے مختلف سکولوں میں جا کر پانی کے نمونوں کا ٹیسٹ کر رہے ہیں اور جلد ہی وہ ان سکولوں میں بھی فلٹریشن پلانٹ لگائیں گے۔