Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کابلی والا: ٹیگور کی وقت اور زبان سے ماروا کہانی جو پانچ بار سکرین پر جلوہ گر ہوئی

’کابلی والا‘ کو رابندرناتھ کی شاہکار کہانیوں کے زمرے میں ٹی وی پر بھی پیش کیا جا چکا ہے (فائل فوٹو: پینٹرسٹ)
کچھ کہانیاں وقت اور زبان کی سرحد سے نکل جاتی ہیں، کچھ کہانیاں فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو بار بار اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔
زمان و مکان کی قید سے آزاد کہانیاں دراصل عشق و محبت کے لازوال جذبے سے مالا مال ہوتی ہیں چنانچہ اس زمرے میں ہمیں ’لیلی مجنوں‘، ’شیریں فرہاد‘، ’سسی پنوں‘، ’رومیو جولیٹ‘، ’سوہنی ماہیوال‘ اور ’یوسف خان شیر بانو‘ جیسی کہانیاں نظر آتی ہیں۔
ان کہانیوں پر ابتدائے آفرینش سے فلمیں بن رہی ہیں اور ہر بار مقبول بھی ہو رہی ہیں۔ عشق و محبت کے یہ کردار اپنے آپ میں لازوال ہیں لیکن کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو کسی لازوال محبت کی داستان تو نہیں لیکن جب انہیں لکھا گیا تو کسی کے گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ہر دور میں فلم سازوں کی ان میں دلچسپی نظر آئے گی۔
ایسی ہی ایک فلم ’دیوداس‘ ہے جس کے کم از کم پانچ ورژن تو جانے پہچانے ہیں اور اس سے متاثرہ اور بھی کئی فلمیں ہیں۔ لیکن دلیپ کمار، سوچترا سین اور ویجنتی مالا کی اداکاری فلم سب میں نمایاں ہے۔
بہرحال ان محبت کی داستانوں سے الگ انڈیا کے معروف افسانہ نگار اور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی کہانی ’کابلی والا‘ ہے۔ اس پر بھی کم از کم پانچ فلمیں بن چکی ہیں۔
نوبل انعام سے سرفراز ہونے والے پہلے انڈین رابندرناتھ نے یہ کہانی سنہ 1892 میں لکھی تھی اور اس پر پہلی بار سنہ 1957 میں بنگالی زبان میں فلم بنائی گئی۔
اس کے چار برس بعد ہندی میں اداکار بلراج ساہنی کے ساتھ یہ فلم ہندی زبان میں پیش کی گئی۔
اس کو رابندرناتھ کی شاہکار کہانیوں کے زمرے میں ٹی وی پر بھی پیش کیا جا چکا ہے۔
سنہ 2006 میں بنگلہ دیش میں اسی نام سے اور اسی کہانی پر مبنی ایک فلم بنائی گئی۔

محبت کی داستانوں سے الگ انڈیا کے معروف افسانہ نگار اور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی کہانی ’کابلی والا‘ ہے (فائل فوٹو: دا سٹیٹسمین)

اس سے قبل سنہ 1993 میں ملیالم زبان میں اس پر مبنی ایک مزاحیہ فلم بنائی گئی اور پھر سنہ 2023 میں اس کا روپ سامنے آيا جس میں معروف اداکار متھن چکرورتی نے کابلی والے رحمت کا کردار ادا کیا ہے۔
ہم فلم ’کابلی والا‘ پر یوں ہی نہیں پہنچے، دراصل یکم دسمبر سنہ 1970 کو ایک فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ ریلیز ہوئی تھی جس نے پاکستان میں پشتو فلم انڈسٹری کی بنیاد ڈالی اور اسے ’پالی وڈ‘ کہا گیا۔
پشتو فلموں کا مرکز پشاور ہے اس لیے پشاور کی نسبت سے ’پالی وڈ‘ کو زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔
اگرچہ پشتو فلم انڈسٹری افغانستان میں بھی کئی وجوہات سے پھل پھول نہیں سکی لیکن اس کے آثار بہت پرانے ہیں کہا جاتا ہے کہ پہلی پشتو فلم سنہ 1941 میں ہی تیار ہوئی تھی اور یہ لیلی مجنوں تھی۔
’یوسف خان شیربانو‘ پشتو زبان میں پیش کی گئی ایک دلکش لوک کہانی ہے۔ اس کہانی کو رومیو اینڈ جولیٹ کا پختون ورژن بھی کہا جاتا ہے۔
یوسف خان اور شیربانو کی کہانی کو شاعر علی حیدر جوشی نے سنہ 1960 کی دہائی میں تحریر کیا تھا اور اسے سنہ 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ میں تبدیل کیا گیا تھا۔

’یوسف خان شیربانو‘ پشتو زبان میں پیش کی گئی ایک دلکش لوک کہانی ہے (فائل فوٹو: خجستان)

اس نظم کا ترجمہ بینی ڈکٹ جانسن (1982 میں) اور انگریزی میں ’نائرسنٹون‘ کے نام سے کیا تھا۔
بہرحال فلم ’کابلی والا‘ میں ایسی کوئی محبت کی لازوال داستان نہیں ہے لیکن ایک پردیسی کی روداد ہے جو ایک لڑکی میں اپنی بیٹی کو دیکھتا ہے۔
رحمت کی اپنی بیٹی بہت پہلے افغانستان میں اس سے الگ ہو جاتی ہے۔ وہ کلکتے میں ایک بڑے شاعر کی لڑکی مُنّی میں اپنی بیٹی کا عکس دیکھتا ہے۔ وہ اس سے بہت پیار کرنے لگتا ہے، اس پر اپنی محبت لٹاتا ہے، اسے طرح طرح کے میوے دیتا ہے مگر مکان مالک کے ساتھ جھگڑے کے بعد اسے جیل ہو جاتی ہے۔
جب وہ رہا ہوتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ مُنّی بڑی ہو گئی ہے اور اس کی شادی ہو رہی ہے، جس سے اسے اپنی بیٹی کی یاد آتی ہے۔ وہ اس سے ملنے جاتا ہے اور پھر اپنے علاقے واپس چلا جاتا ہے۔
انتہائی سادہ سی کہانی میں باپ بیٹی کی محبت کو پیش کیا گيا ہے۔

فلم ’کابلی والا‘ ایک پردیسی کی روداد ہے جو ایک لڑکی میں اپنی بیٹی کو دیکھتا ہے (فائل فوٹو: ایم یو بی آئی)

سنہ 1961 میں آنے والی اس فلم کی ہدایت ہیمن گپتا نے کی ہے جبکہ بلراج ساہنی نے کابلی والے رحمت کا کردار ادا کیا ہے۔
اس کا ایک گیت ’اے مرے پیارے وطن تجھ پر دل قربان‘ آج بھی حب الوطنی کے یادگار گیت کے طور پر انڈیا میں سنا جاتا ہے۔ جبکہ اس کا ایک گیت ’گنگا آئے کہاں سے، گنگا جائے کہاں رے‘ بھی بہت مشہور ہوا۔
اس کہانی میں ایک بے لوث محبت کو پیش کیا گیا ہے اور اس کی پاکیزگی ہی اس کہانی کو آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے اور اس کو نئے انداز میں پیش کی جانے کی کوشش ہنوز جاری ہے۔

شیئر: