منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات، کرپٹو کرنسی کے لیے ریگولیٹری پالیسی
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات، کرپٹو کرنسی کے لیے ریگولیٹری پالیسی
بدھ 3 دسمبر 2025 11:18
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
پاکستان کرپٹو اپنانے والے ممالک کی عالمی فہرست میں مسلسل ٹاپ 10 میں شامل رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں ورچوئل اثاثوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال، کرپٹو کرنسی کی غیر معمولی مقبولیت اور عالمی تقاضوں کے پیش نظر وفاقی حکومت نے ریگولیٹری پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں ’ورچوئل ایسٹ سروس پرووائیڈر (گورننس اینڈ آپریشنز) ریگولیشنز 2025‘ کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس کا باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔
حکام کے مطابق یہ ریگولیشنز فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے ’ٹریول رول‘ اور عالمی مالیاتی تقاضوں کے مطابق ترتیب دی گئی ہیں تاکہ پاکستان میں کرپٹو لین دین کو ایک منظم، محفوظ اور قابلِ نگرانی نظام میں لایا جا سکے۔
اُردو نیوز کو دستیاب سرکاری مسودے کے مطابق نئے ریگولیشنز کا بنیادی مقصد ڈیجیٹل فنانس اکانومی کو محفوظ بنانا، سرمایہ کاروں کے حقوق کی حفاظت کرنا، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خطرات کم کرنا اور پاکستان میں بلاک چین، ٹوکنائزیشن اور ورچوئل فنانس سے وابستہ کاروبار کو واضح قانونی راستہ فراہم کرنا ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کرپٹو اپنانے والے ممالک کی عالمی فہرست میں مسلسل ٹاپ 10 میں شامل رہا ہے جبکہ غیر سرکاری تخمینوں کے مطابق پاکستانیوں کے پاس موجود ورچوئل اثاثوں کی مجموعی مالیت 18 سے 25 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔
لیکن ریگولیشنز کے فقدان کے باعث یہ شعبہ برسوں سے ایک غیر واضح ’ریگولیٹری گرے ایریا‘ میں موجود تھا، جس سے فراڈ، مارکیٹ میں بے یقینی اور سرمایہ کاروں کے نقصانات کے خدشات بڑھتے رہے۔
غیر سرکاری تخمینوں کے مطابق پاکستانیوں کے پاس موجود ورچوئل اثاثوں کی مجموعی مالیت 18 سے 25 ارب ڈالر کے درمیان ہے (فوٹو: روئٹرز)
نئے ریگولیشنز کے تحت ’پاکستان ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی‘ پورے ملک میں بروکر ڈیلرز، ایکسچینجز، کسٹڈی سروسز، ایڈوائزری سروسز، لینڈنگ و باروئنگ پلیٹ فارمز، ورچوئل ایسٹ مینجمنٹ اور انویسٹمنٹ سمیت ڈیجیٹل فنانس کے تمام شعبوں کی نگرانی کرے گی۔
ہر ورچوئل ایسٹ سروس پرووائیڈر کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنی ملکیتی ساخت، شیئر ہولڈنگ، ’الٹی میٹ بینیفشل اونرز‘، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور تمام ’میٹیریل چینجز‘ کی پیشگی منظوری اتھارٹی سے حاصل کرے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر شفاف یا مشکوک ملکیتی اثرات کے ذریعے کاروبار پر کسی ممکنہ خطرے کا راستہ بند کیا جا سکے۔
ریگولیشنز میں کارپوریٹ گورننس، شفافیت اور رسک مینجمنٹ کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ اداروں کو ’سیگریگیشن آف ڈیوٹیز‘، مفادات کے ٹکراؤ سے بچاؤ، سائبر سکیورٹی پروٹوکولز، ڈیٹا پروٹیکشن، ٹریڈنگ رولز، شکایات کے حل کا نظام اور اندرونی کنٹرولز کے جامع تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔
ہر ادارے کے لیے ایک مستقل ’کمپلائنس آفیسر‘ رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے جو کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں اتھارٹی کو بروقت آگاہ کرے گا۔
اس کے علاوہ کمپنیوں کو اپنے ماہانہ اخراجات کے ڈیڑھ گنا ’نیٹ لکوئیڈ ایسٹس‘ برقرار رکھنا ہوں گے، جبکہ 30 فیصد سرمایہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں بطور سکیورٹی جمع کرانا ہو گا جو صرف کاروبار کے تمام واجبات کی ادائیگی کے بعد واپس کیا جائے گا۔
اینٹی منی لانڈرنگ فریم ورک کے مطابق کرپٹو کرنسی کی بڑی ٹرانزیکشنز پر سخت نگرانی کی جائے گی۔ مسودے میں 10 لاکھ روپے سے زائد کے کرپٹو ٹرانسفر پر مکمل ڈیٹا، بھیجنے اور وصول کرنے والے کی تفصیلات، ٹرانزیکشن کا ریکارڈ اور ’ٹریول رول‘ کے مطابق مکمل معلومات جمع کرانے کی شرط عائد کرنے کی تجویز ہے۔
ورچوئل ایسٹ سروس پرووائیڈرز کو مشکوک سرگرمیوں کی فوری رپورٹنگ، بلاک چین ٹریکنگ ٹولز کا لازمی استعمال، اور سائبر سکیورٹی کے لیے سالانہ آڈٹ کرانا ہو گا۔ غیر شناختی یا مشکوک ٹرانزیکشنز پر سخت جانچ پڑتال لازمی قرار دی گئی ہے جبکہ ڈیٹا شیئرنگ کے لیے ایک مربوط نظام بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ کرپٹو مارکیٹ میں غیر قانونی سرگرمیوں، مشکوک ٹرانزیکشنز اور منی لانڈرنگ کی روک تھام سب سے بڑا چیلنج ہے، اس لیے خصوصی بلاک چین نگرانی یونٹ بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
مستقبل میں لائسنسنگ فریم ورک، ٹیکنالوجی آڈٹ، سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور عالمی ریگولیٹرز کے ساتھ رابطوں کو مزید بڑھانے کا منصوبہ ہے تاکہ پاکستان خطے میں ڈیجیٹل فنانس کا محفوظ اور مسابقتی مرکز بن سکے۔
ماہرین کے مطابق یہ ضوابط پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے ’سنگِ میل‘ ثابت ہوں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کرپٹو کا حجم اربوں ڈالر تک پہنچ چکا ہے مگر اب تک غیر منظّم پلیٹ فارمز کے ذریعے کام ہوتا رہا، جس سے سرمایہ کاروں کے تحفظ کا کوئی نظام نہیں تھا۔ نئے ریگولیشنز نہ صرف اس خلا کو پُر کریں گے بلکہ پاکستان کو عالمی فِن ٹیک سیکٹر میں مربوط اور محفوظ انداز سے شامل ہونے کا موقع دیں گے۔‘
حکومت کے مطابق یہ فریم ورک رواں سال ہی نافذ ہونے کا امکان ہے جس کے بعد پاکستان میں ورچوئل ایسٹ کا پورا شعبہ پہلی بار مکمل قانونی دائرے میں داخل ہو جائے گا۔