Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاموش پیغام یا محض اتفاق؟ مودی نے پوتن کے لیے فورچونر کا انتخاب کیوں کیا؟

روس کے صدر ولادیمیر پوتن چار برس بعد انڈیا کے دورے پر دہلی پہنچ چکے ہیں۔
جمعرات کو صدر پوتن کی دہلی آمد کے وقت بھرپور سفارتی پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا۔ سرخ قالین بچھایا گیا، انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی پروٹوکول توڑ کر خود انہیں رن وے پر لینے پہنچے، مصافحہ ہوا اور پھر گرمجوشی سے گلے بھی ملے۔
سوشل میڈیا پر وائرل متعدد ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے انڈین وزیرِاعظم کی رہائش گاہ جاتے ہوئے ایک ہی گاڑی میں سفر کیا۔ لیکن جس چیز نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچی، وہ تھی وزیرِاعظم مودی کا اپنی معمول کی رینج روور کے بجائے سفید ٹویوٹا فورچونر کا انتخاب۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر صارفین کا یہ سوال سامنے آیا کہ کیا یہ انتخاب سوچا سمجھا سفارتی پیغام تھا یا محض اتفاق؟
انڈین میڈیا کے مطابق اگرچہ اس حوالے سے سرکاری طور پر کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی، لیکن ماہرین نے کئی نظریے پیش کیے ہیں کہ اس موقعے پر ایک جاپانی برانڈ کی گاڑی کیوں چنی گئی۔ اس کے ساتھ ہی فورچونر سگما 4 (ایم ٹی) پر مہاراشٹر کی نمبر پلیٹ بھی نمایاں تھی۔
انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی روسی وزیرِ دفاع آندرے بیلوسوف کے ساتھ نیشنل وار میموریل جانے کے لیے سفید فورچونر ہی استعمال کی۔
ماہرین اور جغرافیائی سیاست کے مبصرین کا خیال ہے کہ فورچونر، جس کی تیاری جاپانی کمپنی ٹویوٹا کرتی ہے، کا انتخاب ایک سوچا سمجھا قدم ہو سکتا ہے تاکہ ایسے وقت میں یورپی برانڈ سے گریز کیا جائے جب انڈیا اور روس، دونوں، یوکرین جنگ کی وجہ سے مغرب کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ فورچونر انڈیا میں ہی تیار ہوتی ہے۔
فی الحال وزیرِاعظم مودی کی سرکاری گاڑیوں میں رینج روور اور مرسڈیز مے باخ S650 گارڈ شامل ہیں۔ رینج روور اگرچہ ٹاٹا موٹرز کی ملکیت ہے مگر اس کی تیاری برطانیہ میں ہوتی ہے، جبکہ مرسڈیز ایک جرمن برانڈ ہے۔ برطانیہ اور جرمنی دونوں روس کے خلاف وسیع پابندیاں لگا چکے ہیں اور یوکرین کی بھرپور فوجی مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے پوتن کا کسی بھی یورپی گاڑی میں سفر کرنا سفارتی منظرنامے میں منفی تاثر پیدا کر سکتا تھا۔
جب دونوں رہنما وزیرِاعظم کی رہائش گاہ کی طرف ٹویوٹا فورچونر میں روانہ ہوئے تو ان کے پیچھے نریندر مودی کی رینج روور اور پیوٹن کی آورَس سینَت چل رہی تھیں، لیکن سب کی توجہ سفید فورچونر پر تھی۔
انڈین میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فورچونر کا انتخاب دراصل نشستوں کی ترتیب کی وجہ سے کیا گیا۔ وزیرِاعظم کی رینج روور میں تیسری قطار موجود نہیں، اس لیے وہ دو رہنماؤں کے ساتھ مترجمین کے بیٹھنے کے لیے مناسب نہیں تھی۔
فورچونر میں اضافی نشستوں کی قطار ہے۔ مترجمین پہلے ہی گاڑی میں بیٹھ چکے تھے، اور دونوں ممالک کی سکیورٹی ٹیموں نے اس گاڑی کے استعمال کی منظوری دی تھی۔
کیا یہ مغرب کے لیے پیغام تھا؟
سوشل میڈیا صارفین اور ماہرین نے اس فیصلے سے کئی سفارتی معنی اخذ کیے۔ دفاعی تجزیہ کار کرنل روہت دیو نے ٹویٹ کیا: ’مغرب کے لیے ایک پیغام۔‘

ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا ’وزیرِاعظم نریندر مودی اور صدر پیوٹن نے رینج روور کے بجائے ٹویوٹا فورچونر میں سفر کیوں کیا؟ جواب یہ کہ ہمارے وزیرِاعظم اور صدر کی سرکاری گاڑیاں رینج روور اور مرسڈیز ہیں۔ یہ دونوں یورپی برانڈز ہیں، چاہے رینج روور ٹاٹا موٹرز کی ملکیت ہی کیوں نہ ہو، اس کی تیاری یورپ میں ہوتی ہے۔ روس اس وقت یورپ اور یورپی برانڈز کے خلاف کھڑا ہے۔ اسی لیے وزیرِاعظم مودی نے صدر پیوٹن کو ٹویوٹا فورچونر میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ نہ رینج روور استعمال ہوئی، نہ مرسڈیز۔ جاپانی گاڑی کا انتخاب بھی اپنے آپ میں ایک پیغام ہے‘

اس حوالے سے انڈین حکومت کی جانب سے تاحال کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی لیکن انٹرنیٹ پر فارچونر اس وقت ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس پر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

 
 

شیئر: