Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حامد میر کا تجزیہ: کیا ڈی چوک دوبارہ آباد ہونے جا رہا ہے؟

عمران خان پاکستان کی تاریخ کے ایک بہت ہی خوش قسمت وزیراعظم ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان صاحب پاکستان کی تاریخ کے بہت ہی بدقسمت وزیراعظم بھی ہیں۔
خوش قسمت وہ اس لیے ہیں کہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں ایک ایسی سویلین حکومت کے وزیراعظم ہیں جس کے ساتھ فوج کھل کر ساتھ کھڑی ہے اور عدلیہ کی طرف سے بھی انہیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے۔ جب یہ دو بڑے ریاستی ادارے کسی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو پھر اس حکومت کو کامیابی کے انبار لگا دینے چاہیے اور ایسی حکومت بہت عرصے کے بعد پاکستان میں آئی ہے۔
 لیکن بدقسمتی کی بات کرتے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ دیکھیں فوج بھی ان کے ساتھ ہے اور عدلیہ نے بھی اس حکومت کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا پھر بھی وہ عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

پاکستانی فوج کھل کر عمران خان کی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی

 پہلے انہوں نے تین مہینے کی بات کی تھی پھرچھ مہینے کی بات کی اور اب نو مہینے بھی گزر گئے ہیں اور اب کہا جا رہا ہے کہ اگلے دو سال  آپ انتظار کریں۔
 آپ دیکھیں کہ اس وقت پاکستان کی اپوزیشن کے تمام بڑے لیڈر جیل میں ہیں۔ نواز شریف جیل میں ہیں، آصف زرداری جیل میں ہیں، شاہد خاقان عباسی صاحب کو بھی جیل میں بھیج دیا گیا ہے اور ہم سن رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی  جیل میں چلے جائیں گے۔
 اس طرح  یہ لگتا ہے کہ عمران خان کا پورا زور ہے کہ اپوزیشن ساری کی ساری جیل میں چلی جائے۔
 اسی صورتحال میں اب وہ امریکہ جا رہے ہیں اور وہاں پر 22 جولائی کو ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ہوگی۔ اب دیکھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ کیا کیا ہے۔ بظاہر کا عمران خان صاحب بہت لکی ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کی براہ راست ایک ملاقات ہونے والی ہے، لیکن عمران خان کی حکومت نے پاکستان میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے خلاف کارروائی کی اور انہیں گرفتار کیا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے حافظ سعید کی گرفتاری کا کریڈٹ اپنے آپ کو دے دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

 تاہم ٹرمپ نے ٹویٹ کر کے اس کامیابی کا کریڈٹ اپنے آپ کو دے دیا اور کہا کہ وہ دو سال سے پریشر ڈال رہا تھا اس پریشر کے نتیجے میں حافظ سعید کو گرفتار کیا گیا ہے۔
 تو اس طرح عمران خان کی پاکستان میں بڑی سبکی ہوئی ہے، کیونکہ پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ حکومت جو ہے شاید اس کو سمجھ آگئی ہے اور واقعی پاکستان کی پالیسی بدل گئی ہے۔ اس حکومت کو سمجھ آگئی ہے کہ یہ جو کالعدم تنظیمیں ہیں ان کے خلاف کارروائی اب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، لیکن ٹرمپ صاحب نے اس کا کریڈٹ اپنے آپ کو دے دیا ہے۔ اور عمران خان صاحب سے ان کا کریڈٹ چھین لیا ہے۔
 دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ جب عمران خان صاحب امریکا میں موجود ہوں گے جہاں 22 جولائی کو ان کی ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ہے، 23  جولائی کو انہوں نے یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں جانا ہے، 24 کو شاید وہ پاکستان واپس روانہ ہوں گے اور  25 کو جب وہ پاکستان پہنچیں گے تو پاکستان کے چار بڑے شہروں میں چار بڑی اپوزیشن پارٹیاں ان کے خلاف مظاہرے کر رہی ہوں گی۔

عمران خان صاحب کا سارا زور اس بات پر ہوگا کہ جتنے بھی اپوزیشن کے لوگ باہر رہ گئے ہیں وہ جیل میں چلے جائیں۔ فوٹو اے ایف پی

 ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کا سارا زور اس بات پر ہوگا کہ جتنے بھی اپوزیشن کے لوگ باہر رہ گئے ہیں وہ جیل میں چلے جائیں، لیکن اپوزیشن جماعتوں کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ عمران خان صاحب کے خلاف جتنی بھی مزاحمت  کومنظم کر سکتے ہیں کریں۔
جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت بھی شروع ہوچکی ہے سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں جائے گا اور اس میں کچھ مزید انکشافات ہوں گےاور ان انکشافات کے سامنے آنے سے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں وہ ادارے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت عمران خان صاحب کی کھل کر حمایت کرنا پاکستان کی ضرورت ہےان کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی بھی کرنی پڑ سکتی ہے۔
 پاکستان کے جو اس وقت معاشی حالات ہیں ان معاشی حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان صاحب اپوزیشن کو ساتھ لے کے چلتے۔ جن لوگوں نے کرپشن کی ہے ان کا احتساب ضرور کرتے، لیکن عمران خان صاحب کو چاہیے تھا کہ
 چارٹرآف اکانومی کوعملی جامہ پہناتے اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے لیکن اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک کھلی جنگ شروع ہوچکی ہے۔
لگتا ہے کہ جولائی کے آخری ہفتے میں اس میں کافی شدت پیدا ہو جائے گی، اگست اور ستمبر کے مہینے میں یہ اپنے عروج پر پہنچے گی اورپھر آپ یہ دیکھیں گے اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر، جہاں 2014 میں آپ کو عمران خان بیٹھے ہوئے نظر آ رہے تھے، اب وہاں پرآپ کو اپوزیشن جماعتیں اپنے کارکنوں کے ساتھ بیٹھی نظر آئیں گی۔

ڈی چوک میں آپ کو  اپوزیشن جماعتیں اپنے کارکنوں کے ساتھ بیٹھی نظر آئیں گی۔

عمران خان نے اپوزیشن سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ ڈی چوک میں آئیں گے تو وہ ان کو کنٹینر فراہم کریں گے، لیکن اب لگتا یہ ہے کہ عمران خان اپوزیشن کو کنٹینر فراہم نہیں کریں گے، بلکہ ان کو جیل بھیجنے کی کوشش کریں گے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب اپوزیشن کے مزید کتنے لوگ جیل میں جاتے ہیں اور عمران خان 2019  خیر خیریت سے گزارتےہیں یا نہیں۔
اس صورت حال میں کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے بہت خوش قسمت وزیراعظم بھی ہیں، لیکن بہت بد قسمت وزیراعظم بھی ہیں۔

شیئر: