Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہزاروں سیاحوں، یاتریوں کی کشمیر سے منتقلی شروع

انتباہ کے بعد لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
عسکریت پسندوں کے ممکنہ حملوں سے متعلق  مقامی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سکیورٹی الرٹ کے بعد ہزاروں سیاح  کشمیر کے متنازعہ علاقے سے محفوظ مقام پر منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق کشمیر میں سینیئر حکومتی عہدیدار نے سنیچر کو بتایا کہ اس انتباہ کے بعد لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ہزاروں سیاح، یاتری اور مزدور علاقے کو خالی کررہے ہیں۔
انڈین حکام نے ’دہشتگردی کے خطرات‘ کے باعث جمعے کو سیاحوں کو کشمیر سے نکلنے کی ہدایت کی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خبر گردش کر رہی تھی کہ 25 ہزار مزید فوجی اہلکاروں کو شورش زدہ ہمالیائی خطے میں بھیجا گیا ہے اور لوگوں کو کہا گیا ہے کہ کھانا اور پیٹرول جیسی روزمرہ کی ضروریات کو ذخیرہ کر لیں۔

انتباہ کے نتیجے میں گاڑیوں کی لمبی قطاروں کو پیٹرول سٹیشنز کے باہر دیکھا جا سکتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

اس انتباہ کے نتیجے میں گاڑیوں کی لمبی قطاروں کو پیٹرول سٹیشنز کے باہر دیکھا جا سکتا تھا جبکہ کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں اور بینک کے اے ٹی ایمز پر بھی لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس کی جانب سے انتباہ جاری کیا گیا ہے کہ کشمیر میں زیارت کے لیے آئے ’ہندو یاتریوں‘ کو خطرہ لاحق ہے۔ اس وجہ سے یاتریوں اور سیاحوں کو ’جلد‘ وہاں سے نکلنے کی ہدایت کی گئی ہے۔   
انڈیا کے کشمیر میں فوج کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ دھلن نے کہا ہے کہ پاکستان کا نشان لگی ہوئی ایک سنائپر گن اور ایک بارودی سرنگ امرناتھ کے غاروں کی زیارت کے راستے میں پائی گئی ہے، جس کے لیے ہر سال لاکھوں ہندو جاتے ہیں۔
کنول جیت سنگھ کا کہنا تھا، ’یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے یاترا پر حملے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
واضح رہے کہ انڈیا اس سے پہلے بھی پاکستان پر کشمیر میں بد امنی ہیدا کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے لیکن پاکستان ہمیشہ انڈیا کے ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر انڈین جارحیت ختم ہونی چاہیئے اور مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیئے۔
انڈیا کی حکومت نے کہا ہے کہ مزید 10 ہزار فوجی اہلکاروں کو گذشتہ ہفتے کشمیر بھیجا گیا تھا، تاہم انڈین میڈیا کی جمعہ کی رپورٹس کے مطابق 25 ہزار مزید اہلکاروں کو وہاں جانے کا کہا گیا ہے۔ ادھر کشمیر پولیس چیف کے مطابق نئی بتائی گئی تعداد مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔
واضح رہے کہ 30 جولائی کی رات کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ایک ڈیم پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو ’انڈیا کی جانے سے بلا اشتعال فائرنگ‘ کے بعد محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ فائرنگ سے 24 گھنٹوں کے دوران تین مقامی افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

شیئر: