Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتفاق کی برکتیں، عمار مسعود کا کالم

اپوزیشن حکومت پر کشمیر کے مسئلے پر جارحانہ سفارت کاری نہ ہونے کا الزام لگا رہی ہے
سیانے صحیح ہی کہتے تھے کہ اس ملک میں جمہوریت کے پنپنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ادارے اور اسمبلی ایک پیج پر ہوں۔
موجودہ  دور میں ہم نے اس تصور کو حقیقت بنتے دیکھ لیا ہے۔ اب اداروں اور مقننہ کے درمیان کوئی خلفشار نہیں ہے۔ اب نہ کوئی کسی کی ٹانگ کھینچ رہا ہے نہ کوئی کسی کا بازو مڑور رہا ہے۔ اب اختلاف کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اب اتفاق ہی اتفاق ہے۔ اب راوی چین کی نیند سو رہا ہے اور شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں۔
جمہوریت کی یہ شکل نہ نظام ہے نہ انتقام ہے یہ بہترین انتظام ہے۔ ایسا انتظام جس میں کوئی چیز رکاؤٹ نہیں بن سکتی۔ کوئی پرزہ اس مشینری میں خلل نہیں ڈال سکتا۔ کوئی اس باہمی یگانگت کو" تڑاخ" سے تو ڑ نہیں سکتا۔
بالآخر تہتر سال میں سب ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ سب ایک سی زبان بول رہے ہیں۔ سب کا بیانہ متفقہ ہے۔ سب کی سوچ یکساں ہے اور سب  ایک دوسری کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
ہم جانتے ہی ہیں کہ سب ایک پیج پر نہ ہو تو گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ بہت خلفشار کی کیفیت ہوتی ہے۔ بات بات پر نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ریاست کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ معمولی غلطیاں جرائم کا پہاڑ ہو جاتی ہیں اورجرائم کے ان پہاڑوں میں جمہوریت کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
دیکھیے تو سہی کہ ایک پیج پر ہونے کے کتنے فائدے ہیں۔ پہلے معیشت اس سے یقیناً بہتر تھی۔ شرح نمو پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔ سڑکیں بن رہی تھیں، پراجیکٹس لگ رہے تھے اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی۔ لیکن اس زمانے میں میڈیا معیشت کی زبوں حالی کا ہر لمحہ ماتم کر رہا تھا۔ بڑے بڑے لوگ معیشت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے تھے۔
معیشت کی ابتری  کے حوالے سے سیمنار کروائے جا رہے تھے۔ وزیر اعظم کی بار بار  باز پرس ہو رہی تھی۔  وزراء کو طعنے دیے جا رہے تھے۔
حکومت کی ناقص معاشی کارکردگی کے حوالے سے عدالتوں میں اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ اب وہ  دورپر آشوب بیت گیا ہے۔
اگرچہ معیشت آج خراب تر ہے۔ شرح نمو تین فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ مہنگائی کا طوفان بپا ہو گیا ہے۔ لیکن نہ کوئی ٹویٹ آ رہا ہے نہ کوئی سیمنار کروایا جا رہے نہ کسی کی آبرو میں جنبش ہو رہی ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی تو بات ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ڈان لیکس تھا۔ یہ خبر کیسے لیک ہوئی کیسے ملک اور قوم کی اتنی توہین ہوئی۔
 کون ہے جو غدار ہے ۔ کون ہے جو ملک دشمن ہے۔ ہم نے دیکھا کہ آناً فاناً نواز شریف بھی غدار ہوگئے۔
مریم نواز بھی نہ بچ پائیں، پرویز رشید پر بھی یہ الزام لگا۔ طارق فاطمی بھی اس الزام کی نذر ہوگئے، خواجہ آصف بھی غدار کہلائے اور شاہد خاقان عباسی کو بھی یہی اعزاز بخشا گیا۔


ماضی میں فوج اور سول حکومتوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش رہی ہے: فوٹو اے ایف پی

اب صورت حال مختلف ہے۔ اب چاہے عمران خان ایران میں در اندازی کا الزام اپنے اداروں کو دے دیں یا پھر ببانگ دہل کہیں کہ پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کے لیے نہیں بنا اب کوئی سوال نہیں پو چھتا ، اب کوئی میڈیا میں غداری کا الزام نہیں لگاتا ، اب کوئی ٹویٹ نہیں کرتا۔
ایک پیج پر ہونے کے ثمرات ہمیں خارجہ پالیسی میں بھی نظر آئے پہلے اس قوم کا ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کلبھوشن کا نام نہ لینا تھا۔
اسی بات پر مہینوں میڈیا پروگرام کرتا رہا ۔ دفاعی تجزیہ کار اپنے طوفانی بیانات سے قوم کا خون گرماتے رہے۔
 اب صورت حال مختلف ہے۔ اب عمران خان امریکہ سے ثالثی کا ورلڈ کپ جیت کر آتے ہیں تو کوئی غداری کا نعرہ نہیں لگاتا۔ اب عمران خان  فردوس عاشق اعوان کے ہاتھ سے کشمیر کا جھنڈا پکڑنے سے منکر ہو جاتے ہیں تو سب کو چپ لگ جاتی ہے۔ لیکن کوئی الزام نہیں لگتا بس لوگ چپ چاپ آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
چھوٹی چھوٹی باتیں لیکن یہی باتیں پہلے بہت بڑی تھِیں۔ ریلوے کے نظام پر پہلے طعنے دیے جا رہے تھے، کرپشن کی کہانی سنائی دی جا رہی تھی۔ عدالتوں میں باز پرس ہو رہی تھی۔

”اب عمران خان  فردوس عاشق اعوان کے ہاتھ سے کشمیر کا جھنڈا پکڑنے سے منکر ہو جاتے ہیں تو سب کو چپ لگ جاتی ہے‘

 ذرا ذرا سی بات پر وزیر ریلوے کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اب ایک پیج پر ہونے کے فوائد تو دیکھیے کہ ریلوے کے کئی حادثات ہو چکے ہیں، کئی ٹرینیں الٹ چلی ہیں، درجنوں ان حادثات میں مر چکے ہیں مگر کوئی استعفے کا مطالبہ نہیں کر رہا۔ کوئی کرپشن کی کہانی نہیں سنا رہا۔ کوئی عدالتوں میں جانے کا سوچ بھی نہیں رہا۔
پہلے اپوزیشن کے پانچ سو لوگوں کا جلسہ ایسے دکھایا جاتا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں عوام حکومت سے بغاوت پر تل گئے ہیں اور اب اپوزیشن کے جلسوں کا مکمل بائیکاٹ ہے۔ مگر آزادی اظہار وغیرہ کا کوئی شور نہیں مچا رہا۔
اسی بات کو لے لیجیے کہ تھوڑے عرصے پہلے جب سب ایک پیج پر نہیں تھے تو کرپشن سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ہر پراجیکٹ میں کیڑے نکالے جا رہے تھے۔ ہر ٹھیکے پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ ہر منصوبہ کرپشن کا گڑھ معلوم ہو رہا تھا۔

”ریلوے کے کئی حادثات ہو چکے ہیں، کئی ٹرینیں الٹ چلی ہیں، درجنوں ان حادثات میں مر چکے ہیں مگر کوئی استعفے کا مطالبہ نہیں کر رہا‘

اب کسی کو پشاور میٹرو میں ایک سو ارب روپے کی کرپشن نظر نہیں آ رہی۔ تین سو ارب روپے کے قرضے کی عام معافی پر کوئی غلغلہ نہیں مچ رہا۔ وزراء کی من مانیوں پر کوئی سوال نہیں اٹھ رہا۔
اس وجہ سے کہ اب اختلافات ختم ہو چکے ہیں اور سب توبہ تائب کر کے ایک پیج پر آ چکے ہیں۔
جس سیانے نے کہا تھا کہ اس ملک میں جمہوریت کے پنپنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ادارے اور اسمبلی ایک پیج پر ہوں۔ اس سیانے نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ایک پیچ کی بدولت جمہوریت تو چلے مگر ایسے چلے گی جیسے آندھی چلتی ہے، جیسے غریب کی جھگی پر بجلی کڑکتی ہے۔ جیسے ساحل سے طوفان ٹکراتا ہے یا پھر جیسے  بیمار کو بے وجہ قرار آتا ہے۔

شیئر: