Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک بات پوچھوں، کھاؤ گے تو نہیں؟

کیا ہم واقعی گدھے اور مینڈک کھانے کے مزاح پر ذہنی تسکین پاتے ہیں؟ فائل فوٹو: سوشل میڈیا
میں بچپن میں پکا ویجیٹرین تھا یعنی صرف سبزیاں کھاتا تھا، گوشت نہیں کھا سکتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ذہن میں ایک ناگوار سی بو عود آتی اور کچھ ایسے خیالات آتے تھے کہ  ابکائیاں شروع ہو جاتیں۔ آہستہ آہستہ یہ مسئلہ ٹھیک ہو گیا اور میں گوشت بھی کھانے لگا۔
ایک بار پھر گزشتہ کئی دنوں سے میرے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ وجہ ہے  میرے واٹس ایپ، انسٹا گرام اور فیس بک کی وال پر مینڈکوں کی عجیب سی تصاویر، کریہہ پیغامات اور پھر عجیب مزاح  لیے ان کو کھانے سے متعلق بے تکی  پوسٹس۔
 اب یہ تو کوئی ماہر نفسیات ہی بہتر بتا سکتا ہے کہ کیا یہ کوئی فوبیا ہے؟ اگر ہے تو کیسا فوبیا ہے اور اس سب سے گزرنے والے شخص کو کس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں  سے میں جیسے ہی کھانے کے قریب آتا ہوں تو میرے ذہن کے کینوس پر مینڈک کے حوالے سے کیے گئے بھونڈے مذاق والی پوسٹس  نمایاں ہو جاتی ہیں اور میں کھا پی نہیں سکتا۔
کیا ہماری حس مزاح اس قدر گر گئی ہے؟ کیا ہم واقعی گدھے کھانے اور مینڈک کھانے کی بات پر لوٹ پوٹ ہو کر ذہنی تسکین پاتے ہیں؟ کیا واقعی کوئی پڑھا لکھا معاشرہ ایسے سطحی مذاق کو دنوں، ہفتوں  بلکہ سالوں  کسی خاص خطے، شہر یا جانور سے منسوب کر کے خوب قہقے لگا لگا کر ہنس سکتا ہے؟
کیا واقعی یہ مزاحیہ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہم میں سے کچھ ایسے ناعاقبت اندیش لوگ ہمیں وہ سب کھلا رہے ہیں جو فطری اور دینی طور پر ہم کبھی کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور ہم بجائے ایسے ظالموں کی بیخ کنی کے اسی موضوع پر مذاق کرتے پھرتے ہیں۔
ذرا غور کریں، اس بات میں بھلا کیا مزاح ہے کہ فلاں شخص نے کتا، گدھایا مینڈک کھا لیا؟ بجائے اس کے کہ کوئی پالیسی سازی یا اس ضمن میں قانونی شکنجے کی سختی کی بات کرے یہاں لاکھوں کے لاکھوں تالی پر تالی بجا رہے ہیں۔  جسے احسن تقویم کہا گیا ہے وہ آج مخلوقات خدا کی تضحیک پر آمادہ ہے، اس ساری ہاہاکار میں کسی نے یہ سوچا کہ اس اخبار کو کیوں نہ کٹہرے میں لایا جائے جس کی غلط رپورٹنگ اور غیر ذمہ دارانہ  رویے کی وجہ سے بات کا بتنگڑ بنا اور غلط افواہ پھیلی۔

اگر سنجیدہ ہو کر سوچا جائے تو ہم سوشل میڈیا ایڈیکشن کےاسیر ہو چکے ہیں۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ خبر کے کچھ گھنٹے بعد ہی کشف جیسی صورت حال تھی۔ بہت سے صارفین کو جانے کیسے ادراک ہونے لگ گیا کہ یہی مینڈک، شوارموں، برگرز، فروزن فوڈ اور کئی مخصوص پکوانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ کچھ نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ ایک مہنگا ہوٹل ان مینڈکوں سے خصوصی ڈش بناتا ہے۔
لاہور کا اظہر اسحاق مسیح اور اس کا بھائی اخبار نویس کے ایک جھوٹ کی بھینٹ چڑ گئے، اس سے پہلے وہ پولیس کے ہاتھوں ذہنی اذیت، دشنام طرازی اور تشدد کا نشانہ بنے، اپنی ماں کے سامنے پولیس والوں سے ننگی گالیاں سنیں، جس بدنامی کا ٹیکہ ان کے گھر کے ماتھے پر چار روز تک لٹکا رہا اس کا ازالہ کون کرے گا؟
لیکن ہم کس قدر سلیم الطبع ہیں کہ ہم نے صلاح الدین کے حساس سوال کو بھی مذاق کا رنگ دیتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ ’ایک بات پوچھوں  کھاؤ گے تو نہیں۔‘
اگر سنجیدہ ہو کرسوچا جائے تو ہم سوشل میڈیا ایڈیکشن کے اسیر ہو چکے ہیں اور اس نشے کو پورا کرنے یعنی لائکس حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

ہنسنے کے مواقع کم ہیں لیکن کم از کم اپنا کوئی معیار تو مقرر کریں۔ فوٹو: لاہور پولیس

ابھی کچھ دوستوں اور گوگل سے صلاح لی تو سییو فوبیا اور امیٹو فوبیا جیسی اصطلاحات سامنے آئیں جو کھانے کے ڈر، مینڈک یا کسی بھی جانور، کیڑے وغیرہ کو دیکھنے کے بعد قے، متلی اور دیگر علامات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ کسی چیز سے کراہت آنا، طبیعت خراب ہونا باقاعدہ ڈس آرڈر یا کسی فوبیا کی نشاندہی  کرتا ہے،  جیسے بعض لوگ مختلف پیٹرن دیکھنے  کے بعد چکر آنے اور متلی کی شکایت کرتے ہیں، کچھ ہی دن  قبل ایک دوست کنول  کے کٹے ہوئے پھول  یا جڑ کو دیکھ کر قے کرنے لگ گیا کیونکہ اس میں موجود گڑھے ایسا پیٹرن بنا رہے تھے جس سے اس کے دماغ میں کراہت آمیز امیج بن رہا تھا بعد میں ایک ڈاکٹر صاحب نے اسے ٹرائیپو فوبیا نامی ایک طبی حالت بتایا۔
اگر آپ فیس بک پر بھی تلاش کریں تو ایسے کئی لوگوں کے کمنٹس نظر آئیں گے جنہوں نے ان تصاویر پر ناگواری، طبیعت کی گرانی اور خرابی کا ذکر کیا ہے ۔لیکن کسی کو اس کی بھلا کیا فکر، لائکس کی دوڑ میں کہیں وہ تنہا نہ رہ جائے کے مصداق ہر دوسرا شخص ہر حال میں اس کو شیئر کرنا اجر عظیم سمجھے گا۔ آپ ان بھولے بھالے مینڈکوں اور اپنے فوبیا  سمیت  بھلے متلاتے ر ہیں، یہ آپ کا سر درد ہے۔
درست بات ہے کہ ہم نازک دور سے گزر رہے ہیں اور ہنسنے کے مواقع کم ہیں لیکن کم از کم اپنا کوئی معیار تو مقرر کریں کہ کہیں تو ہم اپنے مقصدیت کے جہاز کو بامعنی نتائج کے ساحل پر لنگر انداز کر پائیں۔ یا ہم یونہی غربت، ننگ افلاس آفات اور ویکسین نہ ملنے پر باؤلے ہوتے رہیں گے،  اپنے مرتے بیٹوں کو بھول کر مہمل اشیاء پر ہلڑ بازی کرتے پھریں گے اور جانے انجانے میں کتنے ہی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنیں گے۔
مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا اور محمد خالد اختر جیسے مصنف پیدا کرنے والی قوم کی حس مزاح اس قدر کمزور کیوں ہو گئی؟ کیا اس کی وجہ شوق مطالعہ کا فقدان ہے؟ تیزی سے کم ہوتی ذہنی پختگی ہے؟ سوشل میڈیا کے جن کی اسیری میں دیے گئے حکم کے مطابق کوئی بھیڑ چال ہے؟ کسی خاص شہر، خطے (جیسے لاہور )سے کوئی نفرت ہے، ترجیحات کی ترتیب میں خلل یا اخلاقی تنزلی ہے؟ فیصلہ آپ کریں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: