Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جان عالم کا کیا ہوگا‘ عبداللہ طارق کا کالم

شیخ صاحب حفظ ماتقدم کے طور پر بلاتاخیر یہ بیان دیا کہ آگ سلنڈر پھٹنے سے لگی۔ فوٹو ریڈیو پاکستان
ایسا کون ہے جس کی زبان میانِ سخن کبھی نہ پھسلی ہو لیکن ماجرائے عجب اس دور تبدیلی میں یہ دیکھا کہ ہر تبدیلی مآب کی زبان ہر روز پھسل جاتی ہے۔ چنانچہ میڈیا کو ایک اضافی درخواست کم و بیش ہر رات ملتی ہے کہ براہِ کرم اسے ہائی لائٹ نہ کیا جائے۔
تازہ مثال ریل حادثے پر شیخ رشید کی ہے۔ رحیم یار خان کے نزدیک ٹرین کی تین بوگیاں جل گئیں، 75 مسافر جان سے گئے۔ شیخ صاحب نے کہ وزیر ریلوے ہیں، حفظ ماتقدم کے طور پر بلاتاخیر یہ بیان دیا کہ آگ سلنڈر پھٹنے سے لگی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلے آگ لگی، پھر سلنڈر پھٹے۔ بعض نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ آگ ایک خاص کیمیکل چھڑک کرلگائی گئی۔ اپوزیشن اسی شبہے کی بنیاد پر مطالبہ کر رہی ہے کہ تحقیقات کرائی جائیں کہ یہ حادثہ تھا یا دہشت گردی۔

* اسی بارے میں مزید پڑھیں 

مولانا فضل الرحمان کا پلان بی کیا ہے؟
’ہر طرف چیخ و پکار، مسافر رو رہے تھے‘
خیر، پاکستان میں تحقیقات کا رواج نہیں۔ زیادہ تر تو ہوتی ہی نہیں، کبھی ہو تو مکمل نہیں ہوتی اور اگر سوئے اتفاق سے مکمل ہوجائے تو رپورٹ جاری ہونے سے انکار کر دیتی ہے یعنی دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہے۔
بات ہو رہی تھی تازہ ترین پھسلن کی اور وہ یہ تھی کہ شیخ صاحب نے دوران پریس کانفرنس روانی میں کہہ دیا کہ تبلیغی حضرات ناشتہ کر رہے تھے کہ ناشتہ پھٹ گیا اور ناشتہ پھٹنے کی وجہ سے سلنڈر پھٹ گئے اور سلنڈر پھٹنے سے آگ لگ گئی۔ پتہ نہیں وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔ کیا ناشتے میں ان حضرات نے انڈوں کی جگہ گرنیڈ ابالے تھے یا ٹی این ٹی کا دلیہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

بعض نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ آگ ایک خاص کیمیکل چھڑک کرلگائی گئی۔ فوٹو اے ایف پی

بہرحال، زبان کی پھسلن کسی بے خودی کی کیفیت میں ہوگئی ہوگی چنانچہ اسے ایشو بنانے کی ضرورت نہیں۔ میڈیا نے بھی ناشتہ پھٹنے کی بریکنگ نیوز نہیں چلائی۔ ایشو البتہ ’بے خودی‘ کا بنایا جا سکتا ہے جو حکمران جماعت پر پہلے روز سے طاری ہے اور اب نکتہ عروج پر پہنچ گئی ہے یا پہنچنے والی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اس بے خودی کو اور بھی رنگین کر دیا ہے۔ وزرا قوم کو یہ بتا رہے ہیں کہ یہ لوگ بھارت کے ایجنٹ ہیں، نریندرمودی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ عالمی میڈیا عالم بے خودی میں دیے گئے ان بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا ورنہ وہ سوال اٹھا سکتا تھا کہ جس ملک میں دشمن کے ایجنٹ اور مودی کے ایجنڈے پر عمل کرنے والے اس طرح اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اس کی سلامتی کا مسئلہ تو سنگین ہے۔

ایک صاحب نظر کا نظریہ یہ ہے کہ ’این آر او نہیں دوں گا‘ کی آڈیئنس اپوزیشن ہے نہ عوام۔ فوٹو اے ایف پی

جو بھی ہو، مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی وجہ سے بہت بڑی ہلچل پیدا ہوئی۔ وزیراعظم خاں بلند آہنگ سے کہتے ہیں کہ یہ سارے مجھ سے تین حرف سننا چاہتے ہیں، یعنی این آر او۔ اپوزیشن کہتی ہے ہم ان تین حروف پر تین حرف بھیجتے ہیں، ہم تو چھ حروف سننا چاہتے ہیں یعنی استعفیٰ۔

وزیر اعظم کہتے ہیں، وہ ہر گز این آر او نہیں دیں گے۔ ایک صاحب نظر کا نظریہ یہ ہے کہ ’این آر او نہیں دوں گا‘ کی آڈیئنس اپوزیشن ہے نہ عوام۔  وزیراعظم کا اصل مخاطب کوئی اور ہے۔ اب تک تو نوازشریف نہیں مانتے تھے، لیکن کچھ کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم کی خطرات کو چھوتی ہوئی صحت انہیں دست بدست دگرے پا بدست دگرے کے مصداق باہر بھجوانے کا معقول بہانہ بن گئی ہے۔

اچھا مان لیجیے کہ ایسا ہی ہوگا تو پھر نواز شریف کے بعد کا منظر نامہ کیا ہوگا۔ راوی طلسم کدے کے لیے چین ہی چین لکھے گا (بڑی حد تک) لیکن پھر ’شہزادہ جان عالم‘ کی ’ناگزیریت‘ کا کیا بنے گا۔ وہ تو نہیں رہے گی۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: